شام ہوئی تو ڈھلتا سایہ بول پڑا
پیڑوں پر چڑیوں کا چنبا بول پڑا
میں جس کو گونگا سمجھا تھا، بول پڑا
پہلی دستک پر دروازہ بول پڑا
شب تیری تصویر نکالی البم سے
خاموشی میں ڈوبا کمرا بول پڑا
میں صحرا سے تیری باتیں کرتا تھا
پاس کہیں دریا سنتا تھا، بول پڑا
میرے اِس کے ساتھ زمانے گزرے ہیں
پیڑ بِکا تو ایک پرندہ بول پڑا
نا انصافی کی بھی حد ہوتی ہے نا
میں کب چپ رہنے والا تھا، بول پڑا
میں چُپ تھا تو چاروں اور تھا سناٹا
تجھ کو دی آواز، زمانہ بول پڑا
اشرف یوسفی
No comments:
Post a Comment