Saturday 29 January 2022

گم گشتہ وفائیں

 گُم گشتہ وفائیں


گُل فشاں، رات کی

شبنمی راہگزر پہ

اجنبی قدموں کی سرسراہٹ

کسی منزلِ نا معلوم کی

سمت جاتے ہوئے، اچانک

اپنی گرمئی آواز سے

میرے عرضِ حال کی سماعتوں کو

زندہ کرنے کے لیے

اپنی جانب بُلا رہی تھیں

نقش، مدھم سے تاروں کی روشنی میں

اپنے دامن کو، الفتوں سے بھر رہے تھے

جن میں گُم گشتہ وفائیں

خلقِ نیم جاں کو، اپنے تعارف کی

ازلی دُھن کے مترنم

ترانے سُنا رہی تھیں

سُلگتے ارمانوں کے واویلے

مدھر سُروں میں

نیم دائروں کی صورت

اپنی برہنہ پائی کے

راگِ الم الاپ رہے تھے

دُھوئیں سے ملامت کا حائل پردہ

باطن کو دیکھنے کی راہ میں

تعطل پیدا نہ کر سکا، کہ

سورج کی بسیط شعائیں

من کی آنکھوں کو دھیرج سے

سرمہ لگا رہی تھیں

سحر پُھونک کر اندھیروں میں

جادو جگا رہی تھیں


قیصر اقبال

No comments:

Post a Comment