Monday, 31 January 2022

کلید نشاط گوشہ نشینی کے چلوں سے پرہیز

 کلید نشاط


گوشہ نشینی کے چِلوں سے پرہیز

پھیکے زمانے کی تسبیح کے 

طے شدہ سب وظیفوں سے بے لذتی

کار دنیا کی بے رنگ قوس قزح

ہانپتی زندگی کے وہی رات دن

میں نے دفتر سے کچھ روز وقفہ کیا

اور جنگل کی جانب کا رستہ لیا

میں تجھے ٹوٹ کے دیکھتا ہوں خدائے زمن

جھومتی شاخ پہ پھول کھلنے کی رنگینیاں

پیڑ کی ٹہنیوں پہ فلک سے اترتی ہوئیں بارشیں

اور بھیگے ہوئے جانور

بے تحاشا پرندے جو غوطے لگائیں کھلے آسماں میں

تو جھیلوں کی سب مچھلیاں تیرتی ہیں کھڑے پانیوں میں

مِرے گاؤں کے کھیت میں شارکیں باغ میں کوئلیں

غار کی تیرگی میں بسیرے ہیں چمگادڑوں کے

ہرن بد حواسی میں جیون کی خواہش کی تعبیر ہیں

ریگزاروں میں بارش نے سبزے کے فرشے کو 

روشن کیا تو کئی رنگ کی تتلیاں 

جھاڑیوں سے نمودار ہونے لگیں اور

آبی دھانوں پہ اک دوسرے کی زباں کو 

سمجھتے ہوئے طائران فلک کا اخوت بھرا سلسلہ

زرد مٹی کی دیوار پہ رینگتی یہ سیہ چیونٹیاں

نیلگوں آسماں پہ مہاجر پرندوں کی سب ٹولیاں

اور لاوا اگلتی زمیں پہ بھی خیمہ نشیں ہیں کئی کیکڑے

گویا تمثیل کا اک جہاں پیچ در پیچ کھلتا گیا

میری بے لذتی کسمساتی ہوئی خاک ہونے لگی

ایسے ارژنگ میں میں تو گوشہ نشیں ہو گیا


عرفان شہود

No comments:

Post a Comment