ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو
آہ کہتا ہوں میں پلکوں سے گرے پانی کو
جس کے ہونے سے نہ محسوس ہو نادار کا دکھ
زہر کہتا ہوں میں اس شے کی فراوانی کو
زندگانی میں محبت ہی تو ہر چیز نہیں
کون سا نام دوں ہمدم! تِری نادانی کو
دردمندی ہی یہاں ہو گا شرف کا معیار
ہم سنواریں گے اب اس خطۂ انسانی کو
اب سبھی کچھ ہے مِرے پاس محبت کے سوا
دیکھ لو آج مِری بے سر و سامانی کو
جرأتِ عشق ہی ہوتی ہے کہ کوئی عاطف
چاند کہتا ہے کسی پیکرِ انسانی کو
عاطف ملک
عین میم
No comments:
Post a Comment