Saturday, 29 January 2022

ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو

 ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو

آہ کہتا ہوں میں پلکوں سے گرے پانی کو

جس کے ہونے سے نہ محسوس ہو نادار کا دکھ

زہر کہتا ہوں میں اس شے کی فراوانی کو

زندگانی میں محبت ہی تو ہر چیز نہیں

کون سا نام دوں ہمدم! تِری نادانی کو

دردمندی ہی یہاں ہو گا شرف کا معیار

ہم سنواریں گے اب اس خطۂ انسانی کو

اب سبھی کچھ ہے مِرے پاس محبت کے سوا

دیکھ لو آج مِری بے سر و سامانی کو

جرأتِ عشق ہی ہوتی ہے کہ کوئی عاطف

چاند کہتا ہے کسی پیکرِ انسانی کو


عاطف ملک

عین میم

No comments:

Post a Comment