عین ممکن ہے وہی ایک پیاسا لا دے
اپنی اس اوک میں بھر کر تجھے دریا لا دے
کتنی وحشت ہے مِری ہجر زدہ آنکھوں میں
نیند! اب تُو ہی کوئی خواب سہانا لا دے
کس میں ہمت ہے کہ اب پشت پہ باندھے اس کو
عمر بھر کون تِرے پیار کا وعدہ لادے
زندگی تیرے حوادث سے بہت عاجز ہوں
سانس لینی ہے مجھے، چین کا لمحہ لا دے
روز کہتا تها؛ فرح توڑ کے تارے لا دوں
آج میں نے بھی کہا ہے اسے؛ اچھا لا دے
فرح شاہ
No comments:
Post a Comment