وہ جھاڑیوں کے بیچ کنول ڈھونڈتا رہا
کیکر کے جو درخت سے پھل ڈھونڈتا رہا
ناقد بنا ہوا ہے جو چربہ کی غرض سے
احمد فرازکی وہ غزل ڈھونڈتا رہا
خدمت نہ کر سکا جو کبھی والدین کی
کاہے کو پھر وہ ان کا بدل ڈھونڈتا رہا
رزقِ حرام کھایا،۔ کھایا عیال کو
بچوں میں کاہے نیک عمل ڈھونڈتا رہا
بوڑھوں کے گھر میں بھیج دیا والدین کو
خود کے لیے سکون کے پل ڈھونڈتا رہا
غفلت میں رہ کے حال کو اپنے گزار کے
خوابوں میں ایک چاند سا وہ کل ڈھونڈتا رہا
مولا علی کے دامنِ اطہر کو چھوڑ کر
وہ مشکلاتِ دہر کا حل ڈھونڈتا رہا
تجمل عباس جارب
No comments:
Post a Comment