Monday 31 January 2022

وہ جھاڑیوں کے بیچ کنول ڈھونڈتا رہا

وہ جھاڑیوں کے بیچ کنول ڈھونڈتا رہا

کیکر کے جو درخت سے پھل ڈھونڈتا رہا

ناقد بنا ہوا ہے جو چربہ کی غرض سے

احمد فرازکی وہ غزل ڈھونڈتا رہا

خدمت نہ کر سکا جو کبھی والدین کی

کاہے کو پھر وہ ان کا بدل ڈھونڈتا رہا

رزقِ حرام کھایا،۔ کھایا عیال کو

بچوں میں کاہے نیک عمل ڈھونڈتا رہا

بوڑھوں کے گھر میں بھیج دیا والدین کو

خود کے لیے سکون کے پل ڈھونڈتا رہا

غفلت میں رہ کے حال کو اپنے گزار کے

خوابوں میں ایک چاند سا وہ کل ڈھونڈتا رہا

مولا علی کے دامنِ اطہر کو چھوڑ کر

وہ مشکلاتِ دہر کا حل ڈھونڈتا رہا


تجمل عباس جارب

No comments:

Post a Comment