Sunday 30 January 2022

تری یادوں کو پھر سے درد کا درماں بنا لیں گے

 تری یادوں کو پھر سے درد کا درماں بنا لیں گے

اٹھے کا درد سینے میں تو ہم اس کو دبا لیں گے

ہوئے جب رو برو تو بات کی حسرت رہی دل میں

ہمیں لگتا تھا ہم دل کی اسے سب کچھ سنا لیں گے

کہاں ملتی ہمیں یارو دوبارہ ان کے ہاتھوں سے

قسم کب ٹوٹنے کی چیز ہے پھر سے اٹھا لیں گے

زمیں والوں سے ڈرتا ہوں کہاں بخشش کریں گے وہ

فلک والے کا کیا ہے اس کو جب چاہا منا لیں گے

جلا ہے آشیاں لیکن چلو یہ بجلیاں خوش ہیں

رکھیں گے چار تنکے اور ہم پھر سے بنا لیں گے

تِرے محشر پہ کیوں موقوف ہو یہ زندگی اپنی

اٹھا کر جام جب چاہے گا ہم محشر اٹھا لیں گے


ندیم اعجاز

No comments:

Post a Comment