تری یادوں کو پھر سے درد کا درماں بنا لیں گے
اٹھے کا درد سینے میں تو ہم اس کو دبا لیں گے
ہوئے جب رو برو تو بات کی حسرت رہی دل میں
ہمیں لگتا تھا ہم دل کی اسے سب کچھ سنا لیں گے
کہاں ملتی ہمیں یارو دوبارہ ان کے ہاتھوں سے
قسم کب ٹوٹنے کی چیز ہے پھر سے اٹھا لیں گے
زمیں والوں سے ڈرتا ہوں کہاں بخشش کریں گے وہ
فلک والے کا کیا ہے اس کو جب چاہا منا لیں گے
جلا ہے آشیاں لیکن چلو یہ بجلیاں خوش ہیں
رکھیں گے چار تنکے اور ہم پھر سے بنا لیں گے
تِرے محشر پہ کیوں موقوف ہو یہ زندگی اپنی
اٹھا کر جام جب چاہے گا ہم محشر اٹھا لیں گے
ندیم اعجاز
No comments:
Post a Comment