کہتے ہیں کچھ نہ سنتے ہیں خالد کسی سے ہم
دن رات کھیلتے ہیں غمِ بے کسی سے ہم
دزدیدہ اک نگاہ تیری دل کو لے اُڑی
منہ دیکھتے ہی رہ گئے کس بیکسی سے ہم
اچھا کیا کہ تُو نے خود آزاد کر دیا
عاجز بھی آ گئے تھے تیری بندگی سے ہم
آ آ کہ جھک گئے ہیں وہیں دو جہاں ندیم
گزرے ہیں جس مقام سے بھی خود سری سے ہم
ویران رہ نہ جائے تیرا آستاں کہیں
لے ہاتھ اٹھا رہے ہیں تیری بندگی سے ہم
خالد! غرورِ اہلِ محبت تو دیکھئے
کرتے ہیں بات اُن سے مگر بے رخی سے ہم
خالد علیگ
No comments:
Post a Comment