Monday, 31 January 2022

ہیں آنکھیں جھیل سی چہرہ کتاب جیسا ہے

 ہیں آنکھیں جھیل سی، چہرہ کتاب جیسا ہے

کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے

کسی بھی بات پر اب بھیگتی نہیں آنکھیں

کہ اپنا حال بھی سوکھے چناب جیسا ہے

یہ آرزو ہے کبھی تو اندھیری شب میں ملے

وہ ایک شخص کہ جو ماہتاب جیسا ہے

یہ سازِ جان تو خاموش ایک عمر سے ہے

اگرچہ لہجہ ابھی تک رباب جیسا ہے

میں اس کے حسن کی تعریف کس طرح سے کروں

وہ آفتاب سا، وہ ماہتاب جیسا ہے

تمہارے بعد میں کس چیز سے لگاﺅں دل؟

مری نظر میں سبھی کچھ حباب جیسا ہے

ہر ایک ذرہ چمکدار کیوں نہیں ہوتا؟

ہر ایک ذرہ اگر آفتاب جیسا ہے

کسے سناﺅں میں اس دل کی داستاں واثق؟

شبِ فراق کا ہر پل عذاب جیسا ہے


سعید واثق

No comments:

Post a Comment