داستاں بھی مختلف لہجہ بھی یاروں سے جدا
پانچواں درویش تو ہے پہلے چاروں سے جدا
زہر نا پختہ مزاجوں میں بھرا کرتے ہیں یہ
آپ رہیے گا ذرا ان ہوشیاروں سے جدا
شور برپا ہو گیا ہر گوشۂ گلزار میں
جب ابھر آیا نیا منظر بہاروں سے جدا
چاٹ جاتی حِرص کی دیمک فقیروں کے بھی تن
سیرتیں ان کی تھیں لیکن شہریاروں سے جدا
بس غمِ جاناں نہیں لیکن غمِ دنیا تو ہے
آپ کیسے ہو گئے پھر دلفگاروں سے جدا
ناصر و بانی سا تجھ کو بھی سراہا جائے گا
جب تِرا رنگ سخن ہو گا ہزاروں سے جدا
عارف انصاری
No comments:
Post a Comment