سیندوری شام کے پہلو میں تاریکی اترنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
نہ آئے پاس میری، آس کے بے آس جھرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
اسے کہنا کہ میری سانس اب مشکل سے چلتی ہے، تِری آہٹ کی سرگم پر
کسی بے آرزو بے صبر کے بے موت مرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
اداسی وسوسوں کے قہر سے بچنے نہیں دیتی، میں کوشش میں تو رہتا ہوں
مِرے دل پر اذیت ناک لمحوں کے گزرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
منڈیروں پر ہری رُت کے فرشتے آن اترتے ہیں، ہوائیں رقص کرتی ہیں
خزاں کی بے نہایت زردیوں کے وار کرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
درختوں نے ابھی موسم سے اپنا حق نہیں مانگا، ابھی مشروط ہیں منظر
شگوفوں سے لچکتی ٹہنیوں کی مانگ بھرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
ٹہلتا ہے کنارے جھیل کے ہنسوں کا اک جوڑا تو میری روح جلتی ہے
کبھی وہ اور میں بھی ایک تھے لیکن بکھرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے
یوسف مثالی
No comments:
Post a Comment