Monday 31 January 2022

ابھی تو زخم پرانے نہ بھول پائے ہیں

 ابھی تو زخم پرانے نہ بھول پائے ہیں

حضور پھر مِری وحشت پہ مسکرائے ہیں

یہ حسنِ ابرِ رواں، شعلہ ہائے لالہ و گل

تِرے جمال کی رعنائیوں کے سائے ہیں

وہیں وہیں پہ سنبھالا تِرے تصور نے

جہاں جہاں بھی قدم میرے ڈگمگائے ہیں

سنا چکی ہے مجھے بھی خزاں کی خاموشی

جو گیت تُو نے بہاروں کے ساتھ گائے ہیں


ریاض انور

No comments:

Post a Comment