ابھی تو زخم پرانے نہ بھول پائے ہیں
حضور پھر مِری وحشت پہ مسکرائے ہیں
یہ حسنِ ابرِ رواں، شعلہ ہائے لالہ و گل
تِرے جمال کی رعنائیوں کے سائے ہیں
وہیں وہیں پہ سنبھالا تِرے تصور نے
جہاں جہاں بھی قدم میرے ڈگمگائے ہیں
سنا چکی ہے مجھے بھی خزاں کی خاموشی
جو گیت تُو نے بہاروں کے ساتھ گائے ہیں
ریاض انور
No comments:
Post a Comment