چراغ بجھ بھی گیا تو ہوا کا پردہ ہے
ہمارے ساتھ ہمارے خدا کا پردہ ہے
میں ایسی خاک سے گوندھا گیا مصیبت میں
میں ایسی موت ہوں جس سے قضا کا پردہ ہے
یہ اپنی رمز مجھی پر عیاں نہیں کرتا
مِرے وجود کا مجھ سے بلا کا پردہ ھے
یہ شاخ شاخ پہ بیٹھے ہوئے پرندوں کے
لبوں پہ ورد مسلسل صدا کا پردہ ہے
میں اس جگہ پہ کھڑا ہوں جہاں پہ موت مِری
مجھے لپیٹ کے چیخے دعا کا پردہ ہے
یہ لوگ مجھ سے تقاضا کریں گے دنیا کا
یہ لوگ جان چکے ہیں خلا کا پردہ ہے
تُو میرے زخم سے کس طرح فیض یاب رہے
کہ خاک زاد پہ ادھڑی قبا کا پردہ ہے
ابرار مظفر
No comments:
Post a Comment