Monday, 31 January 2022

چراغ بجھ بھی گیا تو ہوا کا پردہ ہے

 چراغ بجھ بھی گیا تو ہوا کا پردہ ہے

ہمارے ساتھ ہمارے خدا کا پردہ ہے

میں ایسی خاک سے گوندھا گیا مصیبت میں

میں ایسی موت ہوں جس سے قضا کا پردہ ہے

یہ اپنی رمز مجھی پر عیاں نہیں کرتا

مِرے وجود کا مجھ سے بلا کا پردہ ھے

یہ شاخ شاخ پہ بیٹھے ہوئے پرندوں کے

لبوں پہ ورد مسلسل صدا کا پردہ ہے

میں اس جگہ پہ کھڑا ہوں جہاں پہ موت مِری

مجھے لپیٹ کے چیخے دعا کا پردہ ہے

یہ لوگ مجھ سے تقاضا کریں گے دنیا کا

یہ لوگ جان چکے ہیں خلا کا پردہ ہے

تُو میرے زخم سے کس طرح فیض یاب رہے

کہ خاک زاد پہ ادھڑی قبا کا پردہ ہے


ابرار مظفر

No comments:

Post a Comment