کوئی گلاب یہاں پر کھلا کے دیکھتے ہیں
چلو خرابۂ جاں کو سجا کے دیکھتے ہیں
جہاں کو بھول کے تم کو بھلا کے دیکھتے ہیں
اب اپنے آپ کو دل سے لگا کے دیکھتے ہیں
بگڑ گئے تھے جسے سن کے وقت کے تیور
جہاں کو بات وہی پھر سنا کے دیکھتے ہیں
کبھی کسی کا بھی احساں نہیں لیا ہم نے
اب اپنے سر پہ یہ احساں اٹھا کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے کوئی بات کام کی نہ ہوئی
چلو فلک کو زمیں پر بچھا کے دیکھتے ہیں
نظر نظر تو کئی بار پڑھ چکے اس کو
غزل کو آج ذرا گنگنا کے دیکھتے ہیں
زمانہ ہم پہ بہت دیر ہنس چکا اسلم
چلو اب اس کی ہنسی بھی اڑا کے دیکھتے ہیں
اسلم حبیب
No comments:
Post a Comment