جب سے اک شوخ نظر پھیل گئی چہرے پر
آتش برق و شرر پھیل گئی چہرے پر
بات چپکے سے محبت نے میرے کان میں کی
اور خوشیوں کی خبر پھیل گئی چہرے پر
راہ میں اس کی جلائے تھے امیدوں نے چراغ
روشنی کی تھی کدھر پھیل گئی چہرے پر
کس نے شیشے کی طرح توڑ دیا تھا اس کو
چوٹ دل میں تھی مگر پھیل گئی چہرے پر
سالہا سال کی راتوں کے پرے آئی تھی
عمر بھر کو وہ سحر پھیل گئی چہرے پر
سرد جذبوں پہ ترس کھا کے یہ احساس کی دھوپ
دل پہ کرنے کو اثر پھیل گئی چہرے پر
غم کے کچھ سنگ گراں جب سے مِرے دل پہ گرے
اک ندی تھی جو ادھر پھیل گئی چہرے پر
خواب منزل کے سجائے تھے میری آنکھوں نے
اور حنا! گردِ سفر پھیل گئی چہرے پر
حنا رضوی حیدر
No comments:
Post a Comment