کیا خبر تھی کہ تِرے ساتھ یہ دنیا ہو گی
میری جانب مِری تقدیر ہی تنہا ہو گی
آرزو کی یہ سزا ہے کہ زمانہ ہے خلاف
ان سے ملنے کی خدا جانے سزا کیا ہو گی
مرمریں جسم کا چرچا لب و رخسار کی بات
میری کوئی تو غزل ان کا سراپا ہو گی
اشک غم پینے میں تکلیف تو ہوتی ہے مگر
سوچتا ہوں کہ محبت تِری رسوا ہو گی
نامہ بر بھی ہے طرف دار اب ان کا انجم
میرے حالات کی اب ان کو خبر کیا ہو گی
انجم صدیقی
No comments:
Post a Comment