بھولا نہیں اگر تو بھلا دینا چاہیے
اب اس کا نقش دل سے مٹا دینا چاہیے
اس نے لگا لیے ہیں نئے پیڑ باغ میں
بوڑھا شجر وہاں سے ہٹا دینا چاہیے
کردار سےگئے تو کہانی ہوئی تمام
اب تو نظر سے اپنی گرا دینا چاہیے
شاید کبھی وہ اٹھیں تو دیں قافلوں کو دوش
بہتر یہی ہے اُن کوجگا دینا چاہیے
ممکن نہیں ضیا سے کبھی فیض اٹھائیں ہم
اب اِس چراغِ شب کو بجھا دینا چاہیے
رو رو کے تیرے ہجر میں بینائی کھو چکے
جتنی رہی سزا وہ بتا دینا چاہیے
طائر خزاں میں اپنے شجر کو جو چھوڑ دیں
ان کو منڈیر سے بھی اڑا دینا چاہیے
وہ جا چکا ہے چھوڑ کے اپنے عجیب کو
اب جو بھی فیصلہ ہے سنا چاہیے
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment