Saturday, 29 January 2022

بھولا نہیں اگر تو بھلا دینا چاہیے

 بھولا نہیں اگر تو بھلا دینا چاہیے

اب اس کا نقش دل سے مٹا دینا چاہیے

اس نے لگا لیے ہیں نئے پیڑ باغ میں

بوڑھا شجر وہاں سے ہٹا دینا چاہیے

کردار سےگئے تو کہانی ہوئی تمام

اب تو نظر سے اپنی گرا دینا چاہیے

شاید کبھی وہ اٹھیں تو دیں قافلوں کو دوش

بہتر یہی ہے اُن کوجگا دینا چاہیے

ممکن نہیں ضیا سے کبھی فیض اٹھائیں ہم 

اب اِس چراغِ شب کو بجھا دینا چاہیے

رو رو کے تیرے ہجر میں بینائی کھو چکے

جتنی رہی سزا وہ بتا دینا چاہیے

طائر خزاں میں اپنے شجر کو جو چھوڑ دیں

ان کو منڈیر سے بھی اڑا دینا چاہیے

وہ جا چکا ہے چھوڑ کے اپنے عجیب کو

اب جو بھی فیصلہ ہے سنا چاہیے


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment