Sunday, 30 January 2022

عشق تو عشق تھا خطا کیسی

 عشق تو عشق تھا خطا کیسی

بے خطا جُرم کی سزا کیسی

شب تو شب ہے گُزر ہی جائے گی

سحر لازم ہے، استدعا کیسی

ٹھہرو، دیکھو، سنو، ابھی کیسا

شرم وعدے میں کیا حیا کیسی

شوخئ نین و نگاہ میں گم ہوں

اس کے چہرے پہ یہ ادا کیسی


محمود اظہر

No comments:

Post a Comment