جو شکوہ کرتے ہیں حشمی سے کم نمائی کا
انہیں بھی ڈر ہے زمانے کی کج ادائی کا
پھرے ہیں دھوپ میں سائے کو ساتھ ساتھ لیے
کہ کھل نہ جائے بھرم اپنی بے نوائی کا
مگر کچھ اور ہے یاری کی بات شوق سے تم
لگاؤ چہروں پہ الزام آشنائی کا
عرق عرق تھے ندامت کی آنچ سے خود ہی
گِلہ کریں بھی تو کیا تیری بے وفائی کا
کچھ اس ادا سے ستائے گئے ہیں ہم اب کے
ہر ایک سانس میں انداز ہے دُہائی کا
چلا تو ہوں تِرے ہمراہ کچھ قدم ہی سہی
جو دے تو کیوں مجھے طعنہ شکستہ پائی کا
جو اپنے در پہ صدا دی تو کیا ملا پیارے
یہی کہ نام ڈبو آئے ہم گدائی کا
نکل پڑے ہو اسے ڈھونڈنے مگر حشمی
یہ راستہ ہے مِری جان نارسائی کا
جلیل حشمی
No comments:
Post a Comment