Sunday 30 March 2014

کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا ویراں
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں

گدا قناعت کو بیچتے ہیں

گدا قناعت کو بیچتے ہیں
خُدا کی دولت کو بیچتے ہیں
یہ حُسن والے قدم قدم پر
قرار و راحت کو بیچتے ہیں
عجیب ہیں باغباں چمن کے
گُلوں کی نکہت کو بیچتے ہیں

Saturday 29 March 2014

اسیرِ دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا

اسیرِ دشتِ بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں‌ کو بس دعا کہنا
یہ کہنا رات گزرتی ہے اب بھی آنکھوں ‌میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا
یہ کہنا مسندِ شاخِ نمو پہ تھا جو کبھی
وہ پھول صورتِ خوشبو بکھر گیا کہنا

حصار مقتل جاں میں لہو لہو میں تھا

حصارِ مقتلِ جاں میں لہُو لہُو میں تھا
رَسن رَسن میری وحشت، گلُو گلُو میں تھا
جو رہ گیا نگاہِ سوزنِ مشیّت سے
قبائے زیست کا وہ چاکِ بے رفُو میں تھا
زمانہ ہنستا رہا میری خود کلامی پر
تیرے خیال میں مصروفِ گفتگُو میں تھا

گنتی میں بے شمار تھے کم کر دئیے گئے

گنتی میں بے شمار تھے، کم کر دئیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضَم کر دئیے گئے
پہلے نصابِ عدل ہوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہوا کہ قتل بھی ہم کر دئیے گئے
پہلے لہو لہان کیا ہم کو شہر نے
پھر پیرہن ہمارے عَلَم کر دئیے گئے

کیا کہا پھر تو کہو دل کی خبر کچھ بھی نہیں

کیا کہا، پھر تو کہو، دل کی خبر کچھ بھی نہیں
پھر یہ کیا ہے، خمِ گیسو میں اگر کچھ بھی نہیں
آنکھ پڑ تی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع ہے، گل بھی ہے، بلبل بھی ہے پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے، سحر کچھ بھی نہیں

سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا

سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا
عہدِ شروعِ عشق بھی کس معرکے کا تھا
محرومِ پیش رفت رہے ہم سے خوش خرام
دشتِ زیاں میں اپنا سفر دائرے میں تھا
پیمائشِ سفر نے کئے حوصلے تمام
ہر سنگِ میل، سنگ مِرے راستے کا تھا

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اِک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کُوچ کر جانا
یہ انتقام ہے دشتِ بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا

سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا

سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا
اس شہر کا ہر باسی دلدادۂ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتہ حالات سے کر لیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا

حال مجبوری دل کی نگراں ٹھہری ہے

حالِ مجبورئ دل کی نِگراں ٹھہری ہے
دیکھنا وہ نِگہِ ناز کہاں ٹھہری ہے
ہجرِ ساقی میں یہ حالت ہے کہ آ جائے سرور
بُوئے مے وجہِ غمِ بادہ کشاں ٹھہری ہے
کیوں نہ مامور غمِ عشق ہو دنیائے خیال
شکلِ یار آفتِ ہر پِیر و جواں ٹھہری ہے

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب، یہ مروّت کیسی
دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رندِ آزاد ہیں، ہم کو شبِ فُرقت کیسی
جس حسِیں سے ہوئی اُلفت، وہی معشوق اپنا
عشق کِس چیز کو کہتے ہیں، طبیعت کیسی

میں رو رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے

میں رو رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
زمیں رہے نہ رہے، آسماں رہے نہ رہے
رہے وہ جان جہاں، یہ جہاں رہے نہ رہے
مکیں کی خیر ہو یارب! مکاں رہے نہ رہے
ابھی مزار پر احباب فاتح پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشان رہے نہ رہے

شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

شمشیر ہے سِناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
اِک جانِ ناتواں ہے، کسے دوں کسے نہ دوں
مہمان اِدھر ہُما ہے، اُدھر ہے سگِ حبیب
اِک مشتِ استخواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
درباں ہزار اس کے، یہاں ایک نقدِ جاں
مال اس قدر کہاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

Wednesday 26 March 2014

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں 
تو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا 
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں

ان سے نین ملا کے دیکھو

ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو
دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو
کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو

وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو یہ یوں سناتا مجھے بتاتا

وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو یہ یوں سناتا، مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا، مجھے بتاتا
زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرا رہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا، مجھے بتاتا
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حالِ دلِ شکستہ
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا، مجھے بتاتا

ابھی مجھے اک دشت صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے

ابھی مجھے اک دشتِ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے، ایک سفر ابھی کرنا ہے
گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے
ڈر جانا ہے دشت و جبل کو تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے

خلش ہجر دائمی نہ گئی

خلشِ ہجرِ دائمی نہ گئی
تیرے رخ سے یہ بے رخی نہ گئی
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حُسن والوں کی سادگی نہ گئی
سر سے سودا گیا محبت کا
دل سے پر اس کی بے کلی نہ گئی

جمال یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا

جمالِ یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا
کسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا
تمام اُجڑے خرابے حسِیں نہیں ہوتے
ہر اِک پرانا مکاں قصرِ جَم نہیں ہوتا
تمام عمر رہِ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا تو دَم نہیں ہوتا

شام آئی ہے شراب تیز پینا چاہیے

شام آئی ہے شرابِ تیز پِینا چاہیے
ہو چکی ہے دیر اب زخموں کو سِینا چاہیے
مر گئے تو پھر کہاں ہے حسنِ زارِ زندگی
زخمِ دل گہرا بہت ہے پھر بھی جِینا چاہیے
آج وہ کس دھج سے سیرِ گلستاں میں محو ہے
چھپ کے اس کے ہاتھ سے وہ پھول چِھینا چاہیے

ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا

ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا
یہ اِک جھلک کا تماشا جگر جلا بھی گیا
اُٹھا، تو جا بھی چکا تھا، عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا 
غضب ہوا جو اندھیرے میں جل اُٹھی بجلی
بدن کسی کا طلسمات کچھ دِکھا بھی گیا

شب ماہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گل سا کھلا دیا

شبِ ماہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گُل سا کِھلا دیا
مجھے یوں لگا کسی ہاتھ نے مِرے دل پہ تیر چلا دیا
کوئی ایسی بات ضرور تھی شبِ وعدہ جو نہ آ سکا
کوئی اپنا وہم تھا درمیاں، یا گھٹا نے اس کو ڈرا دیا
یہی آن تھی مِری زندگی، لگی آگ دل میں تو اُف نہ کی
جو جہاں میں کوئی نہ کر سکا وہ کمال کر کے دِکھا دیا

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آ کر دیکھ

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں، اب باہر آ کر دیکھ
ہمت ہے تو میری حالت، آنکھ مِلا کر دیکھ
شام ہے گہری تیز ہوا ہے، سر پہ کھڑی ہے رات
رَستہ گئے مسافر کا اب دِیا جلا کر دیکھ
دروازے کے پاس آ آ کر واپس مُڑتی چاپ
کون ہے اس سُنسان گلی میں، پاس بُلا کر دیکھ

Tuesday 25 March 2014

قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ

قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ 
زوالِ عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ 
بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے 
اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ 
غمِ حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا 
نگارِ شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ 

عشق بتاں اس فکرِ معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا

عشق بتاں اس فکرِ معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا 
ہم نے مانا کنبہ دلی میں رہتا، پر کھاتا کیا 
پہلی بار کے عشق میں ایسا دیوانہ پن ممکن ہے 
روز کی اس شوریدہ سری پر کوئی ہمیں سمجھاتا کیا 
دو دن کی یہ محفل ساقی رندوں سے ہنس بول کے کاٹ 
ہم پھر اپنی راہ لگیں گے، تیرا ہمارا ناتا کیا 

نہاں ہے سب سے مرا درد سینۂ بیتاب

نہاں ہے سب سے مِرا درد ِسینۂ بیتاب 
سوائے دِیدۂ بے خوابِ انجم و مہ تاب
تمہیں تو خیر مِرے غم کدے سے جانا تھا 
کہاں گئیں مِری نیندیں کِدھر گئے مِرے خواب
سفینہ ڈُوب گیا، لیکن اِس وقار کے ساتھ
کہ سر اُٹھا نہ سکا پھر کہیں کوئی گرداب

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کِیجے
کبھی کبھی تِرا غم ہی نہ ہو تو کیا کِیجے
ہماری راہ جُدا ہے، کہ ایسی راہوں پر
رواجِ نقشِ قدم ہی نہ ہو تو کیا کِیجے
ہمیں بھی بادہ گساری سے عار تھی، لیکن
شراب ظرف سے کم ہی نہ ہو تو کیا کِیجے

اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے

اس قدر اب غمِ دوراں کی فراوانی ہے 
تُو بھی منجُملۂ اسبابِ پریشانی ہے 
مُجھ کو اِس شہر سے کُچھ دُور ٹھہر جانے دو 
میرے ہمراہ مِری بے سر و سامانی ہے 
آنکھ جُھک جاتی ہے جب بندِ قبا کھلتے ہیں 
تجھ میں اُٹھتے ہوئے خورشید کی عُریانی ہے 

نگر نگر میلے کو گئے کون سنے گا تیری پکار

نگر نگر میلے کو گئے، کون سنے گا تیری پکار 
اے دل، اے دیوانے دل! دیواروں سے سر دے مار
رُوح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی 
آج تو وہ بھی یوں گزری، جیسے غریبوں کا تیوہار 
اس کے وار پہ شاید آج تجھ کو یاد آئے ہوں وہ دن 
اے نادان خلوص! کہ جب وہ غافل تھا، ہم ہُشیار 

واقف نہیں اس راز سے آشفتہ سراں بھی

واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی 
غم تیشۂ فرہاد بھی، غم سنگِ گراں بھی 
اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی
جو نشترِ فصّاد بھی ہے اور رگِ جاں بھی 
کِس سے کہیں اس حُسن کا افسانہ، کہ جِس کو
کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی 

یہ شہر اپنے حریفوں سے ہارا تھوڑی ہے

یہ شہر اپنے حریفوں سے ہارا تھوڑی ہے
یہ بات سب پہ مگر آشکارا تھوڑی ہے
تِرا فراق بھی رزقِ حلال ہے مجھ کو
یہ پَھل پرائے شجر سے اُتارا تھوڑی ہے
جو عشق کرتا ہے، چلتی ہوا سے لڑتا ہے
یہ جھگڑا صرف ہمارا تمہارا تھوڑی ہے

چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا

چشمِ حیراں کو تماشائے دِگر پر رکھا
اور اس دل کو تِری خیر خبر پر رکھا
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر ہم نے اُٹھا رہ گزر میں رکھا
بوجھ سے جُھکنے لگی شاخ تو جا کر ہم نے
آشیانے کو کسی اور شجر پر رکھا

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

نہ کوئی فال نکالی، نہ اِستخارہ کیا
بس اِک صبح یونہی خَلق سے کنارہ کیا
نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیّارے
اگر زمین نے ہلکا سا اِک اشارہ کیا
جو دل کے طاق میں تُو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے

جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے
نیند آنکھوں میں پریشان پِھرا کرتی ہے
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بُھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
دیکھ بے چارگئ کوئے محبت کوئی دَم
سائے کے واسطے دیوار دُعا کرتی ہے

کبھی بھلا کے کبھی اس کو یاد کر کے مجھے

کبھی بھلا کے، کبھی اُس کو یاد کر کے مجھے
جمالؔ قرض چُکانے ہیں عمر بھر کے مجھے
ابھی تو منزلِ جاناں سے کوسوں دُور ہوں میں
ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے
جو لِکھتا پھرتا ہے دِیوار و در پہ نام مِرا
بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کر کے مجھے

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تِری گلی والے​
بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے​
وہ میرے یار، مِرے قہقہوں کے متوالے​
اگر وہ جان کے دَرپے ہیں اب تو کیا شکوہ​
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے​

Monday 24 March 2014

میں گنہگار اور ان گنت پارسا چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے

میں گنہگار، اور ان گنت پارسا، چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے
جیسے شب خون میں بوکھلا کر اٹھیں لوگ تلوار تلوار کرتے ہوئے
اڑ رہی تھی وہاں گرد تشکیک کی، آندھیاں تیز تھیں طنز و تضحیک کی
راستے میں پڑا نیک نامی کا پُل، خوف آیا جسے پار کرتے ہوئے
وہ خراشیں دکھاتے رہے ہاتھ کی، سنگباری کے دوران آئیں تھی جو
ہم ادھر زخمِ سر کو چھپاتے رہے اور تزئینِ دستار کرتے ہوئے

اب اتنا بردبار نہ بن میرے ساتھ آ

اب اتنا بُردبار نہ بن، میرے ساتھ آ
بدلیں گے مِل کے چرخِ کُہن میرے ساتھ آ​
پیوندِ خاک ہونا ہے بارے ابھی نہیں
پھیلا ہوا ہے نیل گگن میرے ساتھ آ​
پلکیں بِچھی ہیں میری ہر اِک موجِ آب میں
اس پالکی پہ چاند کِرن میرے ساتھ آ​

زمین جکڑے ہوئے ہے آسماں چھاتی پہ رکھا ہے

زمین جکڑے ہوئے ہے آسماں چھاتی پہ رکھا ہے
تمنا نے قدم کیوں مجھ خراباتی پہ رکھا ہے
ذرا سی خاک اڑا کر پوچھ سکتے تھے ہوا سے بھی
مگر ہم نے جہت کا فیصلہ ساتھی پہ رکھا ہے
رہیں گی پاؤں کے نیچے سعادت مند اولادیں
کہ ماں شوکیس میں ہے باپ برساتی پہ رکھا ہے

صحن کعبہ نہ سہی کوئے صنم خانہ سہی

صحنِ کعبہ نہ سہی، کوئے صنم خانہ سہی
خاک اڑانی ہے تو پھر کوئی بھی ویرانہ سہی
زندگی، تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنئ مشربِ رندانہ سہی
آپ سے جس کو ہو نِسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی، ایک دلِ دیوانہ سہی

Sunday 23 March 2014

کبھی مجھ کو ساتھ لے کر کبھی میرے ساتھ چل کے

کبھی مجھ کو ساتھ لے کر، کبھی میرے ساتھ چل کے
وہ بدل گیا اچانک، میری زندگی بدل کے
ہوئے جس پہ مہرباں تم، کوئی خوش نصیب ہو گا
میری حسرتیں تو نکلیں، میرے آنسوؤں میں ڈھل کے
تیری زُلف رُخ کے قربان، دِل زار ڈھونڈتا ہے
وہی چمپئی اجالے، وہی سرمئی دُھندلکے

پرسش غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں

پُرسشِ غم کا شکریہ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی، درد ہے، زندگی نہیں
دور تھا اِک گزر گیا، نشہ تھا اِک اُتر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بے رُخی نہیں
تیرے سوا کروں پسند کیا تِری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں، قیمتِ بندگی نہیں

ہستی کا ہر نفس ہے نیا دیکھ کر چلو

ہستی کا ہر نفس ہے نیا، دیکھ کر چلو
کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا، دیکھ کر چلو
زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو
آزر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
صرصر بنی ہوئی ہے صبا، دیکھ کر چلو

Saturday 22 March 2014

خواب ترے وصال کے ہجر کے نام کر دیئے

خواب تِرے وصال کے ہجر کے نام کر دیئے
شاخچۂ خیال پر پُھول اُدھر اُدھر کِھلے
موسمِ نارسائی نے زخم جِدھر جِدھر دیئے
میں نے کہا بُجھا نہ دے تیری یہ بے رُخی مجھے
اُس نے جلا کے رکھ دیئے کتنے ہی بام پر دِیئے
میں نے کہا کہ پُھول ہو، پُھول سی بات کیجیو

بجا کہ زیست میں تیری نہیں ہیں شامل پر

بجا کہ زیست میں تیری نہیں ہیں شامل پر
کبھی مِلے تھے تجھے ہم بھی دل کے ساحل پر
پرکھ چکا ہوں بہر طور چاک پر اِس کو
کچھ انکشاف کر اپنا بھی اب مِری گِل پر
خدایا خیر! بھلایا ہوا ہے کیوں مجھ کو
کئی دنوں سے مصیبت نہیں پڑی دل پر

محبت کچھ نہیں ہوتی

محبت کچھ نہیں ہوتی
فقط اک دشت ہوتا ہے اندھیرے کا
کہ جس میں
اک جنوں انگیز موسم
اپنی آنکھوں میں
کسی کا

Friday 21 March 2014

زلف یوں رخ سے ہٹانے کا ہنر جانتا ہے

زلف یوں رخ سے ہٹانے کا ہُنر جانتا ہے
رات کو دن میں ملانے کا ہنر جانتا ہے
گرچہ وہ چاند نہیں، عام سا اِک چہرہ ہے
پھر بھی وہ بزم سجانے کا ہنر جانتا ہے
میری آنکھوں میں مِرا غم ہی نہیں پڑھ سکتا
یوں تو وہ شخص زمانے کا ہنر جانتا ہے

اک تار بھی گریباں کا نہ تار میں رہے

اِک تار بھی گریباں کا نہ تار میں رہے
کب تک کوئی یوں عشق کے آزار میں رہے
ہم کو بھی رنجِ فرقتِ خُوباں نے آ لیا
ہم جو نشاطِ صحبتِ دلدار میں رہے
حاصل اگر نہ ناخنِ تدبیر کا ملے
لذت اگر نہ کاوشِ بے کار میں رہے

اندر سے کھلے گا کہ یہ باہر سے کھلے گا

اندر سے کھلے گا، کہ یہ باہر سے کھلے گا
اس غار کا منہ، کون سے منتر سے کھلے گا
مٹی کو مِری چاک پہ رکھا تو گیا ہے
میں کیا ہوں کسی دستِ ہنرور سے کھلے گا
دستک میں کسی اور کے دروازے پہ دوں گا
دروازہ کوئی اور برابر سے کھلے گا

شہر ویران ہے خبر ہے تمہیں

شہر ویران ہے، خبر ہے تمہیں
کس کا نقصان ہے، خبر ہے تمہیں
عشق کی راہ چل پڑے ہو تم
کتنی سُنسان ہے، خبر ہے تمہیں
یہاں آتی ہے روز بادِ صبا
یہ گلستان ہے، خبر ہے تمہیں

تیغِ شکستہ تیرِ خمیدہ سے جنگ میں

تیغِ شکستہ، تیرِ خِیدہ سے، جنگ میں
لڑتا ہے کون دستِ بُریدہ سے جنگ میں
کرنا پڑے گا مجھ کو عدو سے مکالمہ
وہ بڑھ رہا ہے خطِ کشیدہ سے جنگ میں
مجھ کو مِلا ہے مالِ غنیمت سے اِک قلم
میں نے بھری تھی آگ قصیدہ سے جنگ میں

Wednesday 19 March 2014

رات لبوں پر کیا کیا برسا ابر تری مہمانی کا

رات لبوں پر کیا کیا برسا ابر تِری مہمانی کا
پیاس کا جھولا جھول رہا تھا ایک کٹورا پانی کا
آنکھ میں نیند کا کاجل بھر کے، کھینچ کے خوابوں کے ڈورے
تھپک تھپک کے بھوک سُلا دی، جوڑ کے تار کہانی کا
کتنے سیہ فاقوں کے جلو میں کتنی صدیاں بِیت گئیں
لیکن پرجا بُھول نہ پائی قصہ راجا رانی کا

اسی غم کی اوٹ ملا تھا وہ مجھے پہلی بار یہیں کہیں

اسی غم کی اوٹ مِلا تھا وہ، مجھے پہلی بار یہیں کہیں
کسی چشمِ تر میں تلاش کر اُسے میرے یار یہیں کہیں
یہ جو سمتِ عشق میں جھیل ہے، یہ جو سمتِ غم میں پہاڑ ہیں
مِری راہ دیکھ رہا نہ ہو، مِرا شہ سوار یہیں کہیں
مِرے دل کے باب نہ کھولنا، مِرے جان و تن نہ ٹٹولنا
کسی زاویے میں پڑا نہ ہو، وہ بُتِ نگار یہیں کہیں

دیے کا دم کہیں اٹکا ہوا ہے

دِیے کا دَم کہیں اٹکا ہُوا ہے
سو، مُشکل، بھیڑنا پٹ کا ہُوا ہے
بس اِک اُمید پر ہم جی رہے ہیں
کہ وہ گھٹوال، تلچھٹ کا ہُوا ہے
ہماری وحشتوں کے ساتھ شہرہ
کسی کی خیرہ سر لَٹ کا ہُوا ہے

وہ چرچا جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے

وہ چرچا جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے
کہ، دل کا پاسباں کھٹکا ہوا ہے
وہ مصرع تھا کہ اِک گُلرنگ چہرہ
ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے
ہم ان آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں
یہ ہاتھ، اُس ہاتھ کا جھٹکا ہوا ہے

دل بھر آئے تو سمندر نہیں دیکھے جاتے

دل بھر آئے، تو سمندر نہیں دیکھے جاتے
 عکس، پانی میں اُتر کر نہیں دیکھے جاتے
 دیکھ، اے سُست روی! ہم سے کنارا کر لے
 ہر قدم، راہ کے پتھر نہیں دیکھے جاتے
 وہ چہک ہو کہ مہک، ایک ہی رُخ اُڑتی ہے
 برسرِ دوشِ ہوا، پَر نہیں دیکھے جاتے

سرخ ہوئے پھر نورِ نمو سے پھولوں کے رخسار

سرخ ہوئے، پھر نُورِ نمُو سے، پھولوں کے رُخسار
عکسِ جمالِ یار سے ٹھہرا، ہر چہرہ گُلنار
محملِ گل سے پاؤں نکالا، رات کی رانی نے
رخنہ رخنہ رَچ رَچ اُتری، دیواروں کے پار
قدم قدم خُوشبو کے الاؤ، پھر سے ہوئے روشن
گُل گھوروں پر، پھر سے لگے ہیں، رنگوں کے انبار

مری طرح کہیں شائستۂ وفا ہی نہ ہو

 مِری طرح کہیں شائستۂ وفا ہی نہ ہو
 وہ شخص کتنا حسیں ہے، کہیں یہ میں تو نہیں
 دیارِ دل میں رُلانے پہ کون روتا ہے
 یہ سب ہیں اہلِ غم اپنے تئیں، یہ میں تو نہیں
 قضا ہوا مِرا کیا کچھ، تِرے خرام کے ساتھ
 بچا ہے کیا، یہ ہے دُنیا کہ دِیں، یہ میں تو نہیں

زندگی بھر یہ بوجھ ڈھونا ہے

زندگی بھر یہ بوجھ ڈھونا ہے
آگہی عمر بھر کا رونا ہے
رات ان کے بدن کی چاندی تھی
صبح ان کے بدن کا سونا ہے
سایۂ دار، سایۂ دیوار
عشق کا اوڑھنا بِچھونا ہے

Tuesday 18 March 2014

چمن میں نغمہ سرائی کے بعد یاد آئے

 چمن میں نغمہ سرائی کے بعد یاد آئے
قفس کے دوست، رہائی کے بعد یاد آئے
وہ جن کو ہم تِری قُربت میں بھول بیٹھے تھے
وہ لوگ تیری جدائی کے بعد یاد آئے
وہ شعر یوسفِؑ کنعاں تھے جن کو بیچ دیا
ہمیں قلم کی کمائی کے بعد یاد آئے

وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک

وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا، ہونے تک
زندگی! اس سے زیادہ تو نہیں عمر تِری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک
ایک اِک سانس مِری رہن تھی دِلدار کے پاس
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک

کس قدر آگ برستی ہے یہاں

کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق، شبنم کو ترستی ہے یہاں
صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں
رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں

اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم

اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے، تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم

یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے

یونہی مِل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے
بات سے بات فسانے سے فسانہ نکلے
پھر چلے ذکر کسی زخم کے چِھل جانے کا
پھر کوئی درد کوئی خواب پرانا نکلے
پھر کوئی یاد کوئی ساز اُٹھا لے آئے
پھر کسی ساز کے پردے سے ترانہ نکلے

بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم

بھڑکا رہے ہیں آگ لبِ نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھوں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

تم چلی جاؤ گی پرچھائیاں رہ جائیں گی

تم چلی جاؤ گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی
کچھ نہ کچھ حُسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی
تم تو اس جھیل کے ساحل پہ ملی ہو مجھ سے
جب بھی دیکھوں گا یہیں مجھ کو نظر آؤ گی
یاد مٹتی ہے، نہ منظر کوئی مٹ سکتا ہے
دور جا کر بھی تم اپنے کو یہیں پاؤ گی

اے شریف انسانو

اے شریف انسانو

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدمؑ کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

پرچھائیاں؛ ساحر لدھیانوی

پرچھائیاں مکمل نظم
٭
جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل رہا ہے کسی خواب مرمریں کی طرح
حسین پھول، حسین پتیاں، حسین شاخیں
لچک رہی ہیں کسی جسم نازنیں کی طرح
فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط
زمین حسین ہے خوابوں کی سرزمیں کی طرح

ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا

ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ، دل نہیں ہوتا
آتا ہے جو کچھ منہ میں وہ کہہ جاتا ہے واعظ
اور اُس پہ یہ طرّہ ہے کہ قائل نہیں ہوتا
جب دردِ محبت میں یہ لذت ہے تو یارب
ہر عضو میں، ہر جوڑ میں، کیوں دل نہیں ہوتا

دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ

دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ
غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
رختِ ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں
جامۂ مستعار سا ہے کچھ
چشمِ نرگس کہاں وہ چشم کہاں
نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ

سرِ راہ عدم گور غربياں طرفہ بستی ہے

سرِ راہِ عدم گورِ غربياں طُرفہ بستی ہے
کہيں غُربت برستی ہے کہيں حسرت برستی ہے
تِری مسجد ميں واعظ، خاص ہيں اوقات رحمت کے
ہمارے مے کدے ميں رات دن رحمت برستی ہے
خمارِ نشہ سے نگاہيں ان کی کہتی ہيں
يہاں کيا کام تيرا، يہ تو متوالوں کی بستی ہے

مرے بس میں یا تو یا رب وہ ستم شعار ہوتا

مِرے بس میں یا تو یا رب، وہ سِتم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا
تِرا مے کدہ سلامت، تِرے خُم کی خیر ساقی
مِرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا

Monday 17 March 2014

کبھی کاش رحم کا بھی اثر ملے چشم فتنہ نگاہ میں

کبھی کاش رحم کا بھی اثر مِلے، چشمِ فتنہ نگاہ میں
کہ کوئی گدا ہے پڑا ہوا تِرے درد عشق کی راہ میں
نہیں عذر، زاہدو، لاکھ مرتبہ جائیں طوافِ حرم کو ہم
مگر ایک شرط ہے، مۓ کدہ نہ ملا کرے ہمیں راہ میں
نہیں یاد عیش و ملال عمر گزشتہ کی کوئی داستاں
مگر آہ، چند وہ ساعتیں جو بسر ہوئیں ہیں گناہ میں

گلزار جہاں میں گُل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم

گلزارِ جہاں میں گُل کی طرح، گو شاد ہیں ہم، شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کر صبحِ خزاں، سب نازعبث اک خواب ہیں ہم
کِس ماہِ لقا کے عشق میں یوں بے چین ہیں ہم، بے تاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح آوارہ ہیں ہم، تاروں کی طرح بے خواب ہیں ہم
مٹ جانے پہ بھی مسرور ہیں ہم، مرجھانے پہ بھی شاداب ہیں ہم
شب ہائے شباب و عشق کا اک بھولا ہوا رنگیں خواب ہیں ہم

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں
ہائے وہ راتیں کہ جو خوابِ پریشاں ہو گئیں
میں فدا اس چاند سے چہرے پہ، جس کے نور سے
میرے خوابوں کی فضائیں یوسفؑ ستاں ہو گئیں
عمر بھر کم بخت کو پھر نیند آ سکتی نہیں
جس کی آنکھوں پر تِری زلفیں پریشاں ہو گئیں

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی، ذِکر تمہارا ہوتا
ترکِ دنیا کا یہ دعویٰ ہے فُضول اے زاہد
بارِ ہستی تو ذرا سر سے اُتارا ہوتا
وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غم خوار ہمارا ہوتا

نہ بھولے گا ترا راتوں کو شرماتے ہوئے آنا

نہ بُھولے گا تِرا راتوں کو شرماتے ہوئے آنا
رسِیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہوئے آنا
رُخِ روشن کے جلووں سے سحر کا نور بن بن کر
اندھیری رات کے پردوں کو سرکاتے ہوئے آنا
روپہلی چاندنی میں اپنی مستانہ خرامی سے
بہار و خواب کے سائے سے برساتے ہوئے آنا

آج قسمت سے نظر آئی ہے برسات کی رات

آج قسمت سے نظر آئی ہے برسات کی رات
کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات
ان کی پابوسی کو جائے تو صبا کہہ دینا
آج تک یاد ہے وہ آپ کے گجرات کی رات
جس میں سلمٰی کے تصور کے ہیں تارے روشن
میری آنکھوں میں ہے وہ عالمِ جذبات کی رات

حیراں ہے آنکھ جلوۂ جاناں کو کیا ہوا

حیراں ہے آنکھ جلوۂ جاناں کو کیا ہوا
ویراں ہیں خواب گیسوۓ رقصاں کو کیا ہوا
قصرِ حسیں خموش ہے، ایوان پر سکوت
آواز ہائے سروِ خراماں کو کیا ہوا
پردوں سے روشنی کی کرن پھوٹتی نہیں
اس شمع رنگ و بو کے شبستاں کو کیا ہوا

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک تِرے وصل کی گھڑی ہو گی
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی اک پنکھڑی ہو گی

تفریق نے جادو ہی جگایا ہے بلا کا

تفریق نے جادو ہی جگایا ہے بلا کا
خطرے میں ہے اے یار چمن مہر و وفا کا
توہین ہے درویش کا اس شہر میں جینا
ہو فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا
اب تک کا تفکر غم تقدیر کا چارہ
سینے میں پتا رکھتے ہیں جو ارض و سما کا

دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں

دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست! خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں
زردار توقع رکھتا ہے، نادار کی گاڑھی محنت پر
مزدور یہاں بھی دیوانے، ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارا ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں

دکھ درد کی سوغات ہے دنیا تری کیا ہے

دُکھ درد کی سوغات ہے دُنیا تِری کیا ہے
اشکوں بھری برسات ہے دُنیا تِری کیا ہے
کچھ لوگ یہاں نُورِ سحر ڈھونڈ رہے ہیں
تاریک سی اک رات ہے دُنیا تِری کیا ہے
تقدیر کے چہرے کی شکن دیکھ رہا ہوں
آئینۂ حالات ہے دُنیا تِری کیا ہے

صحنِ کعبہ بھی یہیں ہے تو صنم خانے بھی

صحنِ کعبہ بھی یہیں ہے تو صنم خانے بھی
دل کی دنیا میں گلستان بھی ہیں، ویرانے بھی
لوگ کہتے ہیں اجارہ ہے تِرے جلووں پر
اتنے ارزاں تو نہیں ہیں تِرے دیوانے بھی
آتشِ عشق میں پتھر بھی پِگھل جاتے ہیں
مجرمِ سوزِ وفا، شمع بھی، پروانے بھی

خطاوار مروت ہو نہ مرہون کرم ہو جا

خطاوارِ مروّت ہو، نہ مرہونِ کرم ہو جا
مسرّت سر جھکائے گی، پرستارِ الم ہو جا
انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی الجھی ہوئی راہوں میں میرا ہمقدم ہو جا
کسی زردار سے جنسِ تبسّم مانگنے والے
کسی بے کس کے لاشے پر شریکِ چشمِ نَم ہو جا

ہم خاک نشیں‌ خاک بسر شہر میں تیرے

ہم خاک نشِیں‌، خاک بسر، شہر میں تیرے
کر لیں گے اسے طرح گزر شہر میں تیرے
جب تک تِری گلیوں سے رہا ہم کو تعلق
ہمرقص رہے شمس و قمر شہر میں تیرے
کچھ لوگ تمناؤں کا خوں چہرے پہ مَل کر
بیٹھے ہیں سرِ رہگزر شہر میں تیرے

پھول مسلیں تو انہیں نغمہ و جھنکار ملیں

پھول مسلیں تو انہیں نغمہ و جھنکار ملیں
میں نے کانٹے تو نہیں بوئے کہ انگار ملیں
آنکھ لرزاں ہے سرِ محفلِ ہستی اے دوست
ان کی چلمن کے قرِیں تشنۂ دیدار ملیں
اس کو ادراک کی پُرنُور زباں کہتے ہیں
جس میں انساں کی تعظیم کے اطوار ملیں

تری دنیا میں یارب زیست کے سامان جلتے ہیں

تِری دنیا میں یارب! زیست کے سامان جلتے ہیں
فریبِ زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں
دلوں میں عظمتِ توحید کے دیپک فسُردہ ہیں
جبِینوں پر ریا و کِبر کے فرمان جلتے ہیں
ہوِس کی باریابی ہے خِردمندوں کی محفل میں
روپہلی ٹکلیوں کی اوٹ میں ایمان جلتے ہیں

یارب ترے جہان کے کیا حال ہو گئے

یارب! تِرے جہان کے کیا حال ہو گئے
کچھ لوگ خواہشات کے دلال ہو گئے
تپتی رہی ہے آس کی کرنوں پہ زندگی
لمحے جدائیوں کے مہ و سال ہو گئے
بُھولی ہے رنگ رنگ کو دنیا کی ترنگی
نغمے ربابِ وقت کے بے تال ہو گئے

محبت کے مزاروں تک چلیں گے

محبت کے مزاروں تک چلیں گے 
زرا پی لیں، ستاروں تک چلیں گے 
سُنا ہے یہ بھی رسمِ عاشقی ہے 
ہم اپنے غمگساروں تک چلیں گے 
چلو تم بھی، سفر اچھا رہے گا 
زرا اُجڑے دیاروں تک چلیں گے 

چشم ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے

چشمِ ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
اِن دِنوں وقت پہ، حالات پہ پابندی ہے
بِکھری بِکھری ہوئی زُلفوں کے فسانے چھیڑو
مے کشو! عہدِ خرابات پہ پابندی ہے
دِل شِکن ہو کے چلے آئے تِری محفل سے
تیری محفل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے

نالہ حدود کوئے رسا سے گزر گیا

نالہ، حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا 
اب دردِ دل، علاج و دوا سے گزر گیا 
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں 
نغمہ مقام صورت و صدا سے گزر گیا 
اعجازِ بے خودی ہے کہ یہ حُسن بندگی 
اِک بت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا 

Sunday 16 March 2014

میں اندھیروں کا پجاری ہوں مرے پاس نہ آ

میں اندھیروں کا پجاری ہوں مِرے پاس نہ آ
اپنے ماحول سے عاری ہوں مِرے پاس نہ آ
رُوپ محلوں کی تُو رانی ہے، تِرا نام بڑا
میں تو گلیوں کا بھکاری ہوں مِرے پاس نہ آ
مِری آواز نے کتنے ہی چمن پھونک دئیے
نالۂ صبحِ بہاری ہوں مِرے پاس نہ آ

آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے

آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے
ہم تیرے انتظار میں پھر بھی کھڑے رہے
تم رک گئے پہ سنگ کا میلہ نہ کم ہوا
اس کارواں کے ساتھ مسافر بڑے رہے
میرے بدن پہ صرف ہوا کا لباس تھا
تیری قبا میں چاند ستارے جڑے رہے

تیرا درد بھی یوں جھلکے ہے اب تیری آوازوں سے

تیرا درد بھی یوں جھلکے ہے اب تیری آوازوں سے
جیسے روشنی باہر نکلے شیشے کے دروازوں سے
میں بھی تیرے بازو تھاموں میں بھی تیرے ساتھ اُڑوں
لیکن مجھ کو ڈر لگتا ہے، ان اُونچی پروازوں سے
آنکھیں ڈھونڈتی رہتی ہیں کچھ ، کان سے بجتے رہتے ہیں
میں نے جب سے ناتا توڑا سایوں اور آوازوں سے

وہی دلدار وہی یار یگانہ اپنا

وہی دلدار، وہی یار، یگانہ اپنا
اسی کافر سے تعلق ہے پرانا اپنا
تم زمانے کے مخالف تھے مگر تم پر بھی
کچھ نہ کچھ چھوڑ گیا رنگ زمانہ اپنا
آخری بار وہ اس شان سے بچھڑا ہے کہ پھر
اس سے ملنے کو کبھی دل نہیں مانا اپنا

جو برق و باد پروں سے نکال دیتے ہیں

جو برق و باد پروں سے نکال دیتے ہیں
ہم ان کو ہمسفروں سے نکال دیتے ہیں
تِرا بھی مہر و مروّت پہ اعتقاد نہیں
تو ہم یہ خواب سروں سے نکال دیتے ہیں
جو دل نہ جوڑ سکے، اب تو شیشہ گر اُس کو
سنا ہے شیشہ گروں سے نکال دیتے ہیں

یاد کا موسم جب سے بادل چال ہوا

یاد کا موسم جب سے بادل چال ہوا
اجڑ گئے سپنے، جیون جنجال ہوا
کھیتوں میں پھر سرسوں کی رُت آ پہنچی
آج تجھے بِن دیکھے پورا سال ہوا
تیری راہیں تکتے آنکھیں سُوج گئیں
تیری چاپ ترستے دل پامال ہوا

چین آیا ہے تو اب نیند بھی آ جائے گی

چین آیا ہے تو اب نیند بھی آ جائے گی
اور دھرتی ہمیں آرام سے کھا جائے گی
تُو یونہی دیکھتا رہ جائے گا، اور موجِ ہوا
پُستکِ عمر کے سب حرف مٹا جائے گی
ہم نشیں تُو بھی کسی روز وہاں ہو گا جہاں
مِری دستک، نہ اشارہ، نہ صدا جائے گی

تیری صورت تری آواز بھی پہچانتے ہیں

تیری صورت، تِری آواز بھی پہچانتے ہیں
ہم کسی اور حوالے سے تجھے جانتے ہیں
ہم نے بھی عمر گزاری ہے شبِ ہجراں میں
ہم بھی یاروں کو ستاروں کی طرح جانتے ہیں
ہاتھ خالی ہیں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ برا مانتے ہیں

جانے کیا کچھ دل پر گزری آج جو دیکھا یاروں کو

جانے کیا کچھ دل پر گزری آج جو دیکھا یاروں کو
کیسی مٹی چاٹ گئی ان پتھر کی دیواروں کو
ہم تو جنم کے اندھے ٹھہرے، ہمیں تو کچھ معلوم نہیں
دنیا کب سے دیکھ رہی ہے سورج، چاند، ستاروں کو
تیز ہوا کے چلتے ہی یہ ریگ محل اڑ جائیں گے
آؤ چھوڑ کے شہروں کو آباد کریں پھر غاروں کو

کہ اس مکاں میں کوئی راستہ تو دود کا ہے

جو دل ملا تھا ہمیں شکر ہے زباں بھی ملی
کہ اس مکاں میں کوئی راستہ تو دُود کا ہے
وہ ساحلوں پہ کھڑا لہریں گنتا رہتا ہے
حصول کچھ بھی نہیں، کاروبار سُود کا ہے
پڑھے گا کون یہاں اشتہار عبرت کا
کہ تجھ کو نام کا لپکا مجھے نمُود کا ہے

تنہائی اوڑھ لی ہے کبھی غم بچھا لیا

تنہائی اوڑھ لی ہے، کبھی غم بچھا لیا
مشکل سے زندگی نے کوئی راستہ لیا
ایسے بھی لوگ وقت نے دکھلائے ہیں کہ ہم
انجان بن گئے، کبھی چہرہ چھپا لیا
جیسے ابھی تلک ہو وہ مِری راہ دیکھتا
وہ پہلی شب کا چاند، وہ چہرہ سوالیہ

بازار میں بکتی ہے بڑائی مرے بھائی

بازار میں بِکتی ہے بڑائی مِرے بھائی
پیسا تِرے پلے ہے نہ پائی مِرے بھائی
دیوار پہ ہمسائے کئی قتل ہوئے ہیں
اور وہ بھی کسی نے نہ بنائی مِرے بھائی
اس واسطے میں خاکِ وطن کا ہوں محافظ
یہ بھی ہے غریبوں کی کمائی مِرے بھائی

اس ڈر سے اشارہ نہ کیا ہونٹ نہ کھولے

اس ڈر سے اشارہ نہ کیا ہونٹ نہ کھولے
دیکھے کہ نہ دیکھے، کوئی بولے کہ نہ بولے
پتھر کی طرح تم نے مرا سوگ منایا
دامن نہ کبھی چاک کیا، بال نہ کھولے
میں نے سرِ گرداب کئی بار پکارا
ساحل سے مگر لوگ بڑی دیر سے بولے

ہمارے سامنے کچھ مبتلائے غم گزرے

ہمارے سامنے کچھ مبتلائے غم گزرے
پھر اس کے بعد اسی راستے سے ہم گزرے
نہ تُو جلا، نہ کبھی تیرے گھر کو آگ لگی
ہمیں خبر ہے کہ جن مرحلوں سے ہم گزرے
ہمیں زیادہ خد و خال کی نہیں پہچان
کہ ایسے لوگ ہماری نظر سے کم گزرے

آدمی جب بے نیازِ کفر و ایماں ہو گیا

آدمی جب بے نیازِ کفر و ایماں ہو گیا
صاحبِ دل ہو گیا وہ اور انساں ہو گیا
جب خودی و بیخودی کی منزلیں طے ہو گئیں
مرکزِ اسرارِ فطرت، قلبِ انساں ہو گیا
شیخ کو مجبوریوں کی داد دینی چاہئے
جب نہ کافر بن سکا تو وہ مسلماں ہو گیا

دہر سے ناآشنا ہے خلق سے بیگانہ ہے​

دہر سے ناآشنا ہے خلق سے بے گانہ ہے​
کون کہہ سکتا ہے کہ کس دُھن میں تِرا دیوانہ ہے
ابتدا و انتہا کیا ہستئ موہوم کی​
ابتدا اک داستاں ہے، انتہا افسانہ ہے​
ہوش میں جب تک رہا تنہا رہا غمگیں رہا​
اب ہوں دیوانہ تو اِک عالم مِرا دیوانہ ہے​

اب وہ شوق بزم آرائی کہاں

اب وہ شوقِ بزم آرائی کہاں
اب وہ ذوقِ بادہ پیمائی کہاں
مضطرب ہے قلبِ محزوں، مضطرب
اب فضائے حُسن و رعنائی کہاں
سرد ہے اب سرد جوشِ انبساط
اب خیالِ رنجِ تنہائی کہاں

Saturday 15 March 2014

برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا

برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا
پھر دیکھا جو آئینہ تو ملال سا ہوا
برگِ آوارہ بھی کئی میری طرح تھے دربدر
تنہا نہں ہوں میں شہر میں یہ احتمال سا ہوا
وہ رو رہا تھا میرے خد و خال دیکھ کر
اور میں بھی ٹوٹ گیا جب وہ نڈھال سا ہوا

میرے لفظ معتبر ٹھہریں تیری یادوں کی تابش میں

میرے لفظ معتبر ٹھہریں تیری یادوں کی تابش میں
میں گیلے حرف لے کر جب بھی نکلوں تیز بارش میں
تمہیں بھی یاد تو ہو گا، وہ ایک معصوم سا لڑکا
جو جنگل تک چلا آیا تھا، اِک تِتلی کی خواہش میں
کبھی جب تم گئے رستوں پہ لوٹو گے تو سمجھو گے
کہ کیسے زندہ رہتا ہے کوئی سانسوں کی سازش میں

Friday 14 March 2014

کب تلک پیاس کے صحرا میں جھلستے جائیں

کب تلک پیاس کے صحرا میں جُھلستے جائیں
اب یہ بادل جو اٹھے ہیں تو برستے جائیں
کون بتلائے تُمہیں کیسے وہ موسم ہیں کہ جو
مجھ سے ہی دور رہیں، مجھ میں ہی بستے جائیں
ہائے کیا لوگ یہ آباد ہوئے ہیں مجھ میں
پیار کے لفظ لکھیں، لہجے سے ڈستے جائیں

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا،۔ تو چٹانوں سے کٹ گیا
پھینکا تھکن نے جال تو کیونکر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اڑانوں سے کٹ گیا
وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مِرے شانوں سے کٹ گیا

سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے

سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے
تیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے
سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے
ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال آتا ہے

مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے

مقتلِ جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے، جدھر سے نکلے
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے

یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے

یہ سوچ کر نہ مائلِ فریاد ہم ہوئے
آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے
ہوتا ہے شادکام یہاں کون باضمیر
ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے
پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں
یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
نئے چراغ جلا، رات ہو گئی پیارے
تِری نگاہِ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے
نہ تیری یاد، نہ دنیا کا غم، نہ اپنا خیال
عجیب صُورتِ حالات ہو گئی پیارے

مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں

مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
ہم محوِ تماشائے سرِ راہ گزر ہیں
حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سُو
روتی ہوئی گلیاں ہیں سِسکتے ہوئے گھر ہیں
آئے تھے یہاں جن کے تصوّر کے سہارے
وہ چاند، وہ سورج، وہ شب و روز کدھر ہیں

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مِری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں
اب تذکرۂ خندۂ گُل، بار ہے جی پر
جاں وقفِ غمِ گریۂ شبنم ہے مری جاں
رخ پر تِرے بکھری ہوئی یہ زلفِ‌ سیہ تاب
تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں

تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں

تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
 بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
جوانی نام ہے اک خوبصورت موت کا ساقی
بھڑک اٹھیں تو پروانے حسیں معلوم ہوتے ہیں

احوال زندگی کو لباس بہار دے

احوالِ زندگی کو لباسِ بہار دے
ساقی معاملات کا چہرہ نکھار دے
توہینِ زندگی ہے کنارے کی جستجو
منجھدھار میں سفینۂ ہستی اتار دے
پھر دیکھ اس کا رنگ نکھرتا ہے کس طرح
دوشیزۂ خزاں کو خطابِ بہار دے

Wednesday 12 March 2014

ممکن تو ہے لیکن کسی صورت نہیں کرتے

ممکن تو ہے لیکن کسی صورت نہیں کرتے
ہم دل زدہ اظہارِ محبت نہیں کرتے
اے جان طلب کرتے ہوئے دشت، ادھر آ
اس بستی کے سب لوگ سخاوت نہیں کرنے
یہ کارِ محبت تو ہے پھر کار محبت
ہم لوگ تو ویسے بھی تجارت نہیں کرتے

بہر صورت اگر اس عہد کے کربل میں رہنا ہے

بہر صورت اگر اس عہد کے کربل میں رہنا ہے
تو پھر یہ فیصلہ کر لیں، صفِ اول میں رہنا ہے
فصیلیں بھی میسّر ہیں تمہیں لشکر بھی رکھتے ہو
ہمارا مسئلہ یہ ہے، ہمیں جنگل میں رہنا ہے
ہمیں روکو نہیں ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں
کسی گُل میں مہکنا ہے، کسی بادل میں رہنا ہے

Monday 10 March 2014

وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں

وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار فتنے تہِ پائے ناز، خاک نشیں
ہر اک نگاہِ خمارِ شباب سے رنگیں
شباب جس سے تخیّل پہ بجلیاں برسیں
وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے

یاد کی راہگزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے
ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا
جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم
تم پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کر دیکھو

نہ راہزن نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا

نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لوٹ لیا
نہ پوچھو شومئی تقدیر خانہ بربادی
جمالِ یار کہاں نقشِ پا نے لوٹ لیا
دل تباہ کی روداد، اور کیا کہئے
خود اپنے شہر کو فرمانروا نے لوٹ لیا

چھوڑ کر تیری گلی چین کہاں لیتا ہوں

چھوڑ کر تیری گلی، چین کہاں لیتا ہوں
جسم میرا ہے یہاں، سانس وہاں لیتا ہوں
لوگ حیرت سے وہاں دیکھنے آتے ہیں مجھے
فخر کے ساتھ تِرا نام جہاں لیتا ہوں
روشنی بھی جو دیا کرتے تھے شامِ ہجراں
ان چراغوں سے میں اب صرف دُھواں لیتا ہوں

Friday 7 March 2014

ہم کا دکھائی دیت ہے ایسی روپ کی اگیا ساجن ماں

ہم کا دِکھائی دیت ہے ایسی رُوپ کی اگیا ساجن ماں
جھونس رہا ہے تن من ہمرا نِیر بھر آئے اَکھین ماں
دُور بھئے ہیں جب سے ساجن آگ لگی ہے تن من ماں
پُورب پچھم اُتر دَکھن ڈھونڈ پھری میں بن بن ماں
یاد ستاوے پردیسی کی دل لوٹت انگاروں پر
ساتھ پیا ہمرا جب ناہیں اگیا بارو گُلشن ماں

تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ

تُو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ
ہم بنا لیں گے کہیں چھوٹا سا مے خانہ الگ
مے کشی کے ساتھ لُطفِ رقصِ پیمانہ الگ
اور اس پر اِلتفاتِ پیرِ مے خانہ الگ
خالِ رُخ، دل کی گرفتاری کا اِک سامان ہے
بے خبر ہوتا نہیں ہے دام سے دانہ الگ

نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے

نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے
بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سبو چپ، اداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

سکوں لوٹ کر پھر ستانے لگے ہیں

سکوں لُوٹ کر پھر ستانے لگے ہیں
نہ جانے وہ کیوں یاد آنے لگے ہیں
ہیں مخمور آنکھوں پہ زلفوں کے سائے
سرِ مے کدہ ابر چھانے لگے ہیں
ذرا صبر، اے غنچۂ نا شگفتہ
کہ وہ خیر سے مسکرانے لگے ہیں

اپنوں کے ستم ان کی وفا یاد کریں گے

اپنوں کے ستم ان کی وفا یاد کریں گے
ہم جرمِ محبت کی سزا یاد کریں گے
تُو آ گئی، آنا تھا جنہیں، وہ نہیں آئے
ہم بھی تجھے کیا کیا نہ صبا یاد کریں گے
تُم ہم سے بچھڑتے ہو مگر بھول نہ جانا
یہ سُن کے رکے اور کہا یاد کریں گے

بے تاب ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں

بے تاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں
کیونکر نہ ہوں، دل ایک ہے، ارمان بہت ہیں
کیوں یاد نہ رکھوں تجھے اے دُشمنِ پنہاں
آخر مِرے سَر پر تِرے احسان بہت ہیں
ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں مِلتا
کہنے کو تو اِس دور میں انسان بہت ہیں

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے
کر دیا نہ ہو کہیں تُو نے فراموش مجھے
تیری آنکھوں کا یہ مے خانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے تِرا بادۂ سرنوش مجھے
ایک دو جام سے نیت مِری بھر جاتی تھی
تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے

محبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی

محبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی
بھری برسات ہے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
مصیبت ٹل نہیں سکتی، پریشانی نہیں جاتی
کسی کی بھی نصیحت عشق میں مانی نہیں جاتی
جو کل تک دَیر تھا، ہم نے اسے کعبہ بنا ڈالا
مگر اس پر بھی اپنی کُفر سامانی نہیں جاتی

کوئی جائے طور پہ کس لئے، کہاں اب وہ خوش نظری رہی

کوئی جائے طور پہ کس لیے، کہاں اب وہ خوش نظری رہی 
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہی، نہ وہ شانِ جلوہ گری رہی 
جو خلش ہو دل کو سکوں ملے، جو تپش ہو سوزِ دروں ملے 
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں، جو حیات غم سے بری رہی 
وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا 
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا، کوئی شاخِ ِگل نہ ہری ریی 

آج اک اک بادہ کش مسرور میخانے میں ہے

آج اک اک بادہ کش مسرور مے خانے میں ہے
تازہ تازہ اِسکے، اُسکے، سب کے پیمانے میں ہے
شیخ جل اٹھے گا تُو، وہ شعلہ مے خانے میں ہے
مے نہیں یہ اک دہکتی آگ پیمانے میں ہے
اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے ساری خلق کو
اک ادائے خاص ایسی اُس کے دیوانے میں ہے

سبو اٹھا کہ شب ماہتاب ہے ساقی

سبو اٹھا کہ شبِ ماہتاب ہے ساقی
خروش و بربط و چنگ و رَباب ہے ساقی
پلا شراب کہ عہدِ شباب ہے ساقی
ہر اک گناہ میں غلطاں ثواب ہے ساقی
بچی کچھی ہی سہی ہم پہ بھی کرم فرما
زمانہ در سے تِرے فیض یاب ہے ساقی

تصور میں انہیں ہم جلوہ ساماں دیکھ لیتے ہیں

تصور میں انہیں ہم جلوہ ساماں دیکھ لیتے ہیں
محمدؐ مصطفٰیؐ کا رُوئے تاباں دیکھ لیتے ہیں
نگاہِ عشق سے وہ حُسنِ پنہاں دیکھ لیتے ہیں
نبیؐ کے روپ میں ہم شانِ یزداں دیکھ لیتے ہیں
سفر ہو یا حضر، مدِ نظر ہے گُنبدِ خضریٰ
جمالِ مصطفٰےؐ تا حدِ امکاں دیکھ لیتے ہیں

دیکھنا جذب محبت کا اثر آج کی رات

دیکھنا جذبِ محبت کا اثر، آج کی رات
میرے شانے پہ ہے اُس شوخ کا سر آج کی رات
اور کیا چاہیے اب اے دلِ مجروح تجھے
اُس نے دیکھا تو بہ اندازِ دِگر آج کی رات
پھول کیا، خار بھی ہیں آج گلستاں بکنار
سنگریزے ہیں نگاہوں میں گُہر، آج کی رات

اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم

اذنِ خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہگزرِ کارواں سے ہم
کیونکر ہوا ہے فاش زمانے پہ ، کیا کہیں
وہ رازِ دل جو کہہ نہ سکے رازداں سے ہم
ہمدم یہی ہے رہ گزرِ یارِ خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم

نگاہ لطف مت اٹھ خوگر آلام رہنے دے

نِگاہِ لُطف مت اُٹھ، خُوگرِ آلام رہنے دے
ہمیں ناکام رہنا ہے، ہمیں ناکام رہنے دے
کسی معصوم پر بیداد کا اِلزام کیا معنی
یہ وحشت خیز باتیں عشقِ بدانجام رہنے دے
ابھی رہنے دے دل میں شوقِ شورِیدہ کے ہنگامے
ابھی سر میں محبت کا جنُونِ خام رہنے دے

یہاں سے ہاتھ ملتے جا رہے ہیں

یہاں سے ہاتھ ملتے جا رہے ہیں
 مگر دنیا بدلتے جا رہے ہیں
 یہ لب ہیں اب بھی مرہونِ تبسّم
 پھر آنسو کیوں اُبلتے جا رہے ہیں
 جو نقشے ہم نے کھینچے تھے جنوں میں
 وہی نقشے بدلتے جا رہے ہیں

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
 جنسِ الفت کا خریدار ہوں میں
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بے زار ہوں میں
خوابِ عشرت میں ہیں اربابِ خرد
اوراک شاعرِ بے دار ہوں میں

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورشِ دوراں بُھول گئے
وہ زُلف پریشاں بُھول گئے، وہ دیدۂ گریاں بُھول گئے
اے شوق نظارہ کیا کہئے، نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوقِ تصور کیا کیجئے، ہم صورتِ جاناں بُھول گئے
اب گل سے نظر ملتی ہی نہیں، اب دل کی کلی کِھلتی ہی نہیں
اے فصلِ بہاراں رُخصت ہو، ہم لطفِ بہاراں بُھول گئے

تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے

تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے، تڑپا بھی گئے
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جُھکی، شرما بھی گئے
آشفتگئ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم رازِ تبسّم پا بھی گئے

برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ

بربادِ تمنا پہ عتاب اور زیادہ
ہاں، میری محبت کا جواب اور زیادہ
روئیں نہ ابھی اہلِ نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
آوارہ و مجنوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ
ملنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں 
تیری محفل میں بیٹھنے والے​
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں​
پھول دامن میں چند رکھ لیجے​
راستے میں فقیر ہوتے ہیں​

Thursday 6 March 2014

دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں

دِیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترکِ محبت، ترکِ تمنا، کر چُکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے
سر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائے گا
دوزخ کے انتظام میں اُلجھا ہے رات دن
دعویٰ یہ کر رہا ہے کہ جنت میں جائے گا

کاوش بیش و کم کی بات نہ کر

کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر
چھوڑ دام و درم کی بات نہ کر
دیکھ کیا کر رہے ہیں اہلِ زمیں
آسماں کے ستم کی بات نہ کر
اپنی آہ و فغاں کے سوز کو دیکھ
ساز کے زیر و بم کی بات نہ کر

کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں

کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شائد اِس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اِک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجِش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں

Tuesday 4 March 2014

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مِرا طور زندگی ہی نہیں
اے امید، اے امیدِ نو میداں
مجھ سے میت تِری اٹھی ہی نہہیں
میں جو تھا اس گلی کا مست خرام
اس گلی میں مِری چلی ہی نہیں

دل برباد کو آباد کیا ہے میں نے

دلِ برباد کو آباد کیا ہے میں نے
آج مدت میں تمہیں یاد کیا ہے میں نے
ذوقِ پروار و تب و تاب عطا فرما کر
صید کو لائق صیاد کیا ہے میں نے
تلخئ دورِ گزشتہ کا تصوّر کر کے
دل کو پھر مائلِ فریاد کیا ہے میں نے

اخلاق نہ برتيں گے مدارا نہ کريں گے

اخلاق نہ برتيں گے مدارا نہ کريں گے
اب ہم بھى کسى شخص کى پروا نہ کريں گے
کچھ لوگ کئى لفظ، غلط بول رہے ہيں
اصلاح! مگر ہم بھى اب اصلا نہ کريں گے
کم گوئى کہ اک وصفِ حماقت ہے، بہرطور
کم گوئى کو اپنائيں گے، چہکا نہ کريں گے

ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں

ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں
دھوپ تھے سائباں کے تھے ہی نہیں
راستے کارواں کے ساتھ رہے
مرحلے کارواں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان، کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں

بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خردِ باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے

مجھ کو بے گانہ کر گئے مرے دن

مجھ کو بے گانہ کر گئے مِرے دن 
مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن 
اب نہ جائے گا کوئی دن مرے گھر
جانیے کس کے گھر گئے مِرے دن 
اب نہیں ہیں مِرے کوئی دن رات
کہ مجھی کو بسر گئے مرے دن 

گزر آیا میں چل کے خود پر سے

گزر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بَلا تو ٹلی مِرے سر سے
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
مجھ سے اب لوگ کم ہی مِلتے ہیں
یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے