Wednesday 19 March 2014

دیے کا دم کہیں اٹکا ہوا ہے

دِیے کا دَم کہیں اٹکا ہُوا ہے
سو، مُشکل، بھیڑنا پٹ کا ہُوا ہے
بس اِک اُمید پر ہم جی رہے ہیں
کہ وہ گھٹوال، تلچھٹ کا ہُوا ہے
ہماری وحشتوں کے ساتھ شہرہ
کسی کی خیرہ سر لَٹ کا ہُوا ہے
ابھی دل ہجر سے ہارا نہیں ہے
اِک آنسُو حلق میں اَٹکا ہُوا ہے
سخن تحلیل ہوتے جا رہے ہیں
سخنوَر، بھوت، مرگھٹ کا ہُوا ہے
پرندے کس تھکن میں اُڑ رہے ہیں
مسافر، منزلوں بھٹکا ہُوا ہے
کٹورے ہیں کہ چھلکے آ رہے ہیں
کہ رستہ بند، پنگھٹ کا ہُوا ہے
ابھی تک ایک مٹیالا اُجالا
صلیبِ حرف پر لٹکا ہُوا ہے
گنا جاتا ہے اُن کے صادقوں میں
یہ رُتبہ، ایک نٹ کھٹ کا ہُوا ہے
یہ بستی ہے غزالانِ ختن کی
کوئی بھڑکا، کوئی بھٹکا ہُوا ہے
دلِ رُسوا میں در آئے نہ خالدؔ
یہ آہُو، سائے سے کھٹکا ہُوا ہے

خالد احمد

No comments:

Post a Comment