Monday 24 March 2014

صحن کعبہ نہ سہی کوئے صنم خانہ سہی

صحنِ کعبہ نہ سہی، کوئے صنم خانہ سہی
خاک اڑانی ہے تو پھر کوئی بھی ویرانہ سہی
زندگی، تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنئ مشربِ رندانہ سہی
آپ سے جس کو ہو نِسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی، ایک دلِ دیوانہ سہی
اپنی شوریدہ مزاجی کو کہاں لے جاؤں
تیرا ایماء نہ سہی، تیرا اشارہ نہ سہی
زندگی فرشِ قدم بن کے بِچھی جاتی ہے
اے جنوں اور بھی اِک لغزشِ مستانہ سہی
یہ ہواہیں، یہ گھٹاہیں، یہ فضائیں، یہ بہار
محتسب! آج تو شغلِ مے و پیمانہ سہی
حُسن خُود پردہ کشائے رُخ مقصود تو ہے
عشق کو حوصلہ و عرض و تمنا نہ سہی
کون ایسا ہے یہاں عشق جس کا ہے بے لاگ
آپ کی جان سے دُور آپ کا دیوانہ سہی
زندگی آج بھی دلکش ہے انہیں کے دَم سے
زندگی خواب سہی، عشق اِک فسانہ سہی
تشنہ لب، ہاتھ پہ کیوں ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
کچھ نہیں ہے تو شکستِ خم و خم خانہ سہی
میں نہ زاہد سے ہوں شرمندہ نہ صوفی سے جگر
مسلکِ عشق مِرا، مسلکِ رِندانہ سہی

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment