Tuesday 25 March 2014

اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے

اس قدر اب غمِ دوراں کی فراوانی ہے 
تُو بھی منجُملۂ اسبابِ پریشانی ہے 
مُجھ کو اِس شہر سے کُچھ دُور ٹھہر جانے دو 
میرے ہمراہ مِری بے سر و سامانی ہے 
آنکھ جُھک جاتی ہے جب بندِ قبا کھلتے ہیں 
تجھ میں اُٹھتے ہوئے خورشید کی عُریانی ہے 
اِک تِرا لمحۂ اقرار نہیں مر سکتا 
اَور ہر لمحہ زمانے کی طرح فانی ہے 
کُوچۂ دوست سے آگے ہے بہت دشتِ جنُوں 
عِشق والوں نے ابھی خاک کہاں چھانی ہے 
اِس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں 
اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے 

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment