اس قدر اب غمِ دوراں کی فراوانی ہے
تُو بھی منجُملۂ اسبابِ پریشانی ہے
مُجھ کو اِس شہر سے کُچھ دُور ٹھہر جانے دو
میرے ہمراہ مِری بے سر و سامانی ہے
آنکھ جُھک جاتی ہے جب بندِ قبا کھلتے ہیں
اِک تِرا لمحۂ اقرار نہیں مر سکتا
اَور ہر لمحہ زمانے کی طرح فانی ہے
کُوچۂ دوست سے آگے ہے بہت دشتِ جنُوں
عِشق والوں نے ابھی خاک کہاں چھانی ہے
اِس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں
اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment