Saturday, 29 March 2014

سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا

سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا
اس شہر کا ہر باسی دلدادۂ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتہ حالات سے کر لیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا
پانی کا کوئی چشمہ کب پیاس بُجھائے گا
زہر اب کے ساغر کو ہونٹوں کی طلب ٹھہرا
دیوار بھی بے سایہ، اشجار بھی بے سایہ
بستی ہو کہ جنگل ہو، دستور عجب ٹھہرا
کیا صبح کے آنے کی امید رکھی جائے
جب صبح کا تارہ بھی ہرکارۂ شب ٹھہرا
یہ ہو نہ سکا مجھ سے، احباب کا دل توڑوں
کچھ لفظ بھی گونگے ہیں، کچھ پاسِ ادب ٹھہرا
اب تو بھی نسیمؔ اپنے اظہار کو جِدت دے
اب شامِ الم کو بھی تو صبحِ طرب ٹھہرا

نسیم سحر

No comments:

Post a Comment