سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا
اس شہر کا ہر باسی دلدادۂ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتہ حالات سے کر لیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا
پانی کا کوئی چشمہ کب پیاس بُجھائے گا
زہر اب کے ساغر کو ہونٹوں کی طلب ٹھہرا
دیوار بھی بے سایہ، اشجار بھی بے سایہ
بستی ہو کہ جنگل ہو، دستور عجب ٹھہرا
کیا صبح کے آنے کی امید رکھی جائے
جب صبح کا تارہ بھی ہرکارۂ شب ٹھہرا
یہ ہو نہ سکا مجھ سے، احباب کا دل توڑوں
کچھ لفظ بھی گونگے ہیں، کچھ پاسِ ادب ٹھہرا
اب تو بھی نسیمؔ اپنے اظہار کو جِدت دے
اب شامِ الم کو بھی تو صبحِ طرب ٹھہرا
نسیم سحر
اس شہر کا ہر باسی دلدادۂ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتہ حالات سے کر لیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا
پانی کا کوئی چشمہ کب پیاس بُجھائے گا
زہر اب کے ساغر کو ہونٹوں کی طلب ٹھہرا
دیوار بھی بے سایہ، اشجار بھی بے سایہ
بستی ہو کہ جنگل ہو، دستور عجب ٹھہرا
کیا صبح کے آنے کی امید رکھی جائے
جب صبح کا تارہ بھی ہرکارۂ شب ٹھہرا
یہ ہو نہ سکا مجھ سے، احباب کا دل توڑوں
کچھ لفظ بھی گونگے ہیں، کچھ پاسِ ادب ٹھہرا
اب تو بھی نسیمؔ اپنے اظہار کو جِدت دے
اب شامِ الم کو بھی تو صبحِ طرب ٹھہرا
نسیم سحر
No comments:
Post a Comment