Tuesday 18 March 2014

کس قدر آگ برستی ہے یہاں

کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق، شبنم کو ترستی ہے یہاں
صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں
رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں
زندہ درگور ہوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں
زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فرازؔ
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment