اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا،۔ تو چٹانوں سے کٹ گیا
پھینکا تھکن نے جال تو کیونکر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اڑانوں سے کٹ گیا
وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مِرے شانوں سے کٹ گیا
پِھرتے ہیں پَھن اٹھائے ہوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا
ڈُوبا ہوا مِلا ہے مکِینوں کے خون سے
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا
مِل کر جدا ہوا تھا کوئی اور، اس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا،۔ تو چٹانوں سے کٹ گیا
پھینکا تھکن نے جال تو کیونکر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اڑانوں سے کٹ گیا
وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مِرے شانوں سے کٹ گیا
پِھرتے ہیں پَھن اٹھائے ہوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا
ڈُوبا ہوا مِلا ہے مکِینوں کے خون سے
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا
مِل کر جدا ہوا تھا کوئی اور، اس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا
امید فاضلی
No comments:
Post a Comment