Friday 14 March 2014

کب تلک پیاس کے صحرا میں جھلستے جائیں

کب تلک پیاس کے صحرا میں جُھلستے جائیں
اب یہ بادل جو اٹھے ہیں تو برستے جائیں
کون بتلائے تُمہیں کیسے وہ موسم ہیں کہ جو
مجھ سے ہی دور رہیں، مجھ میں ہی بستے جائیں
ہائے کیا لوگ یہ آباد ہوئے ہیں مجھ میں
پیار کے لفظ لکھیں، لہجے سے ڈستے جائیں
آئینہ دیکھوں تو اک چہرے کے بے رنگ نقوش
ایک نادیدہ سی زنجیر میں کستے جائیں
جُز محبت کِسے آیا ہے میسّر امید
ایسا لمحہ کہ جِدھر صدیوں کے رستے جائیں

امید فاضلی 

No comments:

Post a Comment