Saturday, 15 March 2014

برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا

برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا
پھر دیکھا جو آئینہ تو ملال سا ہوا
برگِ آوارہ بھی کئی میری طرح تھے دربدر
تنہا نہں ہوں میں شہر میں یہ احتمال سا ہوا
وہ رو رہا تھا میرے خد و خال دیکھ کر
اور میں بھی ٹوٹ گیا جب وہ نڈھال سا ہوا
کئی رانجھے بِک گئے یہاں مٹی کے مول سائیں
کئی فرہاد تھے جن کے تیشہ کو زوال سا ہوا
گو ہم نے کاٹ تو لی ہے شبِ ہجر انور جمال
کیونکر کٹی یہ سوچنا اب محال سا ہوا

انور جمال فاروقی

No comments:

Post a Comment