Tuesday 18 March 2014

تم چلی جاؤ گی پرچھائیاں رہ جائیں گی

تم چلی جاؤ گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی
کچھ نہ کچھ حُسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی
تم تو اس جھیل کے ساحل پہ ملی ہو مجھ سے
جب بھی دیکھوں گا یہیں مجھ کو نظر آؤ گی
یاد مٹتی ہے، نہ منظر کوئی مٹ سکتا ہے
دور جا کر بھی تم اپنے کو یہیں پاؤ گی
کھل کے رہ جائے گی جھونکوں میں بدن کی خوشبو
زُلف کا عکس گھٹاؤں میں رہے گا صدیوں
پھول چپکے سے چرا لیں گے لبوں کی سُرخی
یہ جواں حُسن فضاؤں میں رہے گا صدیوں
اس دھڑکتی ہوئی شاداب و حسیں وادی میں
یہ نہ سمجھو کہ ذرا دیر کا قصہ ہو تم
اب ہمیشہ کے لیے میرے مقدر کی طرح
ان نظاروں کے مقدر کا بھی حصہ ہو تم
تم چلی جاؤ گی پرچھائیاں رہ جائیں گی
کچھ نہ کچھ حُسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment