Wednesday 19 March 2014

دل بھر آئے تو سمندر نہیں دیکھے جاتے

دل بھر آئے، تو سمندر نہیں دیکھے جاتے
 عکس، پانی میں اُتر کر نہیں دیکھے جاتے
 دیکھ، اے سُست روی! ہم سے کنارا کر لے
 ہر قدم، راہ کے پتھر نہیں دیکھے جاتے
 وہ چہک ہو کہ مہک، ایک ہی رُخ اُڑتی ہے
 برسرِ دوشِ ہوا، پَر نہیں دیکھے جاتے
 دیکھ، اے سادہ دِل و سادہ رُخ و سادہ جمال
ہر جگہ، یہ زر و زیور نہیں دیکھے جاتے
 اپنے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
 درد مندوں کے مقدّر نہیں دیکھے جاتے
 سرگرفتوں کے لئے گھر بھی قفس ہیں خالدؔ
 ہمت، اے خیرہ سرو! سر نہیں دیکھے جاتے

خالد احمد

No comments:

Post a Comment