ہم خاک نشِیں، خاک بسر، شہر میں تیرے
کر لیں گے اسے طرح گزر شہر میں تیرے
جب تک تِری گلیوں سے رہا ہم کو تعلق
ہمرقص رہے شمس و قمر شہر میں تیرے
کچھ لوگ تمناؤں کا خوں چہرے پہ مَل کر
اٹھتے رہے کلیوں کی جوانی کے جنازے
جلتے رہے پھولوں کے نگر شہر میں تیرے
چلتی ہے تقدس کے لبادوں میں حقارت
بجتے ہیں حوادث کے گَجر شہر میں تیرے
ساغرؔ کی نگاہوں میں کھٹکتے ہیں ابھی تک
کجلائے ہوئے شام و سحر شہر میں تیرے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment