تِری دنیا میں یارب! زیست کے سامان جلتے ہیں
فریبِ زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں
دلوں میں عظمتِ توحید کے دیپک فسُردہ ہیں
جبِینوں پر ریا و کِبر کے فرمان جلتے ہیں
ہوِس کی باریابی ہے خِردمندوں کی محفل میں
حوادث رقص فرما ہیں، قیامت مسکراتی ہے
سنا ہے ناخدا کے نام سے طوفان جلتے ہیں
شگوفے جُھولتے ہیں اس چمن میں بُھوک کے جُھولے
بہاروں میں نشیمن تو بہر عنوان جلتے ہیں
کہیں پازیب کی چَھن چَھن میں مجبوری تڑپتی ہے
ریا دم توڑ دیتی ہے، سنہرے دان جلتے ہیں
مناؤ جشنِ مے نوشی، بکھیرو زُلفِ مے خانہ
عبادت سے تو ساغرؔ دہر کے شیطان جلتے ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment