Monday 17 March 2014

کبھی کاش رحم کا بھی اثر ملے چشم فتنہ نگاہ میں

کبھی کاش رحم کا بھی اثر مِلے، چشمِ فتنہ نگاہ میں
کہ کوئی گدا ہے پڑا ہوا تِرے درد عشق کی راہ میں
نہیں عذر، زاہدو، لاکھ مرتبہ جائیں طوافِ حرم کو ہم
مگر ایک شرط ہے، مۓ کدہ نہ ملا کرے ہمیں راہ میں
نہیں یاد عیش و ملال عمر گزشتہ کی کوئی داستاں
مگر آہ، چند وہ ساعتیں جو بسر ہوئیں ہیں گناہ میں
جو مزاج دل نہ بدل سکا، تو مذاقِ دہر کا کیا گِلہ
وہی تلخیاں ہیں ثواب میں، وہی لذتیں ہیں گناہ میں
مجھے انقلابِ زمانہ کا یقین آئے تو کس طرح
وہی درد ہے مِری آہ میں، وہی ناز تِری نگاہ میں
بخدا کہ دونوں جہان میں کوئی اس سے بڑھ کے خوشی نہ تھی
اگر ایک تلخئ انفعال کی حس نہ ہوتی گناہ میں

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment