اندر سے کھلے گا، کہ یہ باہر سے کھلے گا
اس غار کا منہ، کون سے منتر سے کھلے گا
مٹی کو مِری چاک پہ رکھا تو گیا ہے
میں کیا ہوں کسی دستِ ہنرور سے کھلے گا
دستک میں کسی اور کے دروازے پہ دوں گا
دروازہ کوئی اور برابر سے کھلے گا
منزل تو مجھے خیر مقدر سے ملے گی
رستہ تو میرے پیر کی ٹھوکر سے کھلے گا
اس عہد میں اب کوئی پیمبر نہیں ہو گا
عقدہ جو کھلے گا کسی شاعر سے کھلے گا
کلیم احسان بٹ
اس غار کا منہ، کون سے منتر سے کھلے گا
مٹی کو مِری چاک پہ رکھا تو گیا ہے
میں کیا ہوں کسی دستِ ہنرور سے کھلے گا
دستک میں کسی اور کے دروازے پہ دوں گا
دروازہ کوئی اور برابر سے کھلے گا
منزل تو مجھے خیر مقدر سے ملے گی
رستہ تو میرے پیر کی ٹھوکر سے کھلے گا
اس عہد میں اب کوئی پیمبر نہیں ہو گا
عقدہ جو کھلے گا کسی شاعر سے کھلے گا
کلیم احسان بٹ
No comments:
Post a Comment