Friday, 21 March 2014

تیغِ شکستہ تیرِ خمیدہ سے جنگ میں

تیغِ شکستہ، تیرِ خِیدہ سے، جنگ میں
لڑتا ہے کون دستِ بُریدہ سے جنگ میں
کرنا پڑے گا مجھ کو عدو سے مکالمہ
وہ بڑھ رہا ہے خطِ کشیدہ سے جنگ میں
مجھ کو مِلا ہے مالِ غنیمت سے اِک قلم
میں نے بھری تھی آگ قصیدہ سے جنگ میں
اِک مردِ باراں دِیدہ ہمیں روکتا رہا
اس خونِ گرم و برقِ تپیدہ سے جنگ میں
آؤ نہ بار بار یوں میرے خیال میں
روکو نہ اس طرح نَمِ دِیدہ سے جنگ میں
دربار میں کہا تھا ستارہ شناس نے
ہارے گا وہ غلامِ خریدہ سے جنگ میں
منصورؒ ہو، حسینؓ ہو یا ہو کلیمؔ تم
ہوتے ہیں سربُلند چُنِیدہ سے، جنگ میں

کلیم احسان بٹ

No comments:

Post a Comment