Saturday 29 March 2014

سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا

سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا
عہدِ شروعِ عشق بھی کس معرکے کا تھا
محرومِ پیش رفت رہے ہم سے خوش خرام
دشتِ زیاں میں اپنا سفر دائرے میں تھا
پیمائشِ سفر نے کئے حوصلے تمام
ہر سنگِ میل، سنگ مِرے راستے کا تھا
میں خود پہ ہنس رہا تھا زمانے کے ساتھ ساتھ
وہ مرحلہ بھی عشق میں کس حوصلے کا تھا
سن کر ہماری بات یہ کیا حال کر لیا
تم رو پڑے یہ وقت دعا مانگنے کا تھا
نکلی تھی مدتوں میں‌ ملاقات کی سبیل
تشنہؔ کہو یہ کون سا موقع گِلے کا تھا

عالم تاب تشنہ

No comments:

Post a Comment