Saturday 22 March 2014

خواب ترے وصال کے ہجر کے نام کر دیئے

خواب تِرے وصال کے ہجر کے نام کر دیئے
شاخچۂ خیال پر پُھول اُدھر اُدھر کِھلے
موسمِ نارسائی نے زخم جِدھر جِدھر دیئے
میں نے کہا بُجھا نہ دے تیری یہ بے رُخی مجھے
اُس نے جلا کے رکھ دیئے کتنے ہی بام پر دِیئے
میں نے کہا کہ پُھول ہو، پُھول سی بات کیجیو
اُس نے لبوں کے سُرخ پات میرے لبوں پہ دَھر دئیے
جسم کے اِک لباس پر ناز تھا کس قدر مجھے
دیکھئے اِس لباس نے رُوح میں چھید کر دیئے
اب تِری کہکشاؤں کی کوئی طلب نہیں مجھے
دامنِ دل میں وقت نے اشک ہزار بھر دیئے
میں تو ہر ایک موڑ پر خود سے بِچھڑ بِچھڑ گیا
مجھ کو جہانِ ذات نے کیسے عجب سفر دیئے
پھر بھی سدا نہ رہ سکا کوئی چمن ہرا بھرا
گرچہ بہار کے لیے پُھولوں نے کتنے سر دیئے

عارف فرہاد

No comments:

Post a Comment