Sunday 23 March 2014

کبھی مجھ کو ساتھ لے کر کبھی میرے ساتھ چل کے

کبھی مجھ کو ساتھ لے کر، کبھی میرے ساتھ چل کے
وہ بدل گیا اچانک، میری زندگی بدل کے
ہوئے جس پہ مہرباں تم، کوئی خوش نصیب ہو گا
میری حسرتیں تو نکلیں، میرے آنسوؤں میں ڈھل کے
تیری زُلف رُخ کے قربان، دِل زار ڈھونڈتا ہے
وہی چمپئی اجالے، وہی سرمئی دُھندلکے
کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند، کوئی تارا
جو چراغ بُجھ گئے ہیں تیری انجمن میں جل کے
میرے دوستو! خدارا، میرے ساتھ تم بھی ڈھونڈو
وہ یہیں کہیں چُھپے ہیں میرے غم کا رُخ بدل کے
تیری بے جھجک ہنسی سے نہ کسی کا دِل ہو میلا
یہ نگر ہے آئینوں کا، یہاں سانس لے سنبھل کے

احسان دانش

No comments:

Post a Comment