دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست! خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں
زردار توقع رکھتا ہے، نادار کی گاڑھی محنت پر
کچھ لوگ بھروسا کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں، انسان یہاں بھی اندھے ہیں
بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اُڑتی دیکھی ہے
حیراں ہیں دلوں کے آئینے، نادان یہاں بھی اندھے ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment