تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں، اب باہر آ کر دیکھ
ہمت ہے تو میری حالت، آنکھ مِلا کر دیکھ
شام ہے گہری تیز ہوا ہے، سر پہ کھڑی ہے رات
رَستہ گئے مسافر کا اب دِیا جلا کر دیکھ
دروازے کے پاس آ آ کر واپس مُڑتی چاپ
شاید کوئی دیکھنے والا ہو جائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ
تُو بھی منیرؔ اب بھرے جہاں میں مِل کر رہنا سیکھ
باہر سے تو دیکھ لیا، اب اندر جا کر دیکھ
منیر نیازی
بہُت خوب
ReplyDelete