Saturday 22 March 2014

بجا کہ زیست میں تیری نہیں ہیں شامل پر

بجا کہ زیست میں تیری نہیں ہیں شامل پر
کبھی مِلے تھے تجھے ہم بھی دل کے ساحل پر
پرکھ چکا ہوں بہر طور چاک پر اِس کو
کچھ انکشاف کر اپنا بھی اب مِری گِل پر
خدایا خیر! بھلایا ہوا ہے کیوں مجھ کو
کئی دنوں سے مصیبت نہیں پڑی دل پر
دکھائی دیں گے تجھے اپنے عکس بھی اِس میں
کبھی تُو سامنے آ دیکھ آنکھ کے تِل پر
نگاہ دیکھنے لگتی ہے چار سُو کیا کیا
صحیفے اُس کے اُترتے ہیں جب مِرے دل پر
مِری ہی گھات میں ہے وہ مگر پتا تو چلے
یہ کیسا لرزہ سا طاری ہے دستِ قاتل پر

عارف فرہاد

No comments:

Post a Comment