Saturday 29 March 2014

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اِک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کُوچ کر جانا
یہ انتقام ہے دشتِ بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا
تمہارا قُرب بھی دُوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اُتر آنا
مِرے یقین کو بڑا بدگمان کر کے گیا
دعائے نِیم شب تیرا بے اثر جانا
عجب ہیں رزم گاہِ زندگی کے یہ انداز
اُسی نے وار کیا جس نے بے سپر جانا
ہمارے دَم سے ہی آوارگئ شب تھی
ہمیں عجیب لگے شام ہی سے گھر جانا

عالم تاب تشنہ ​

No comments:

Post a Comment