Wednesday 19 March 2014

رات لبوں پر کیا کیا برسا ابر تری مہمانی کا

رات لبوں پر کیا کیا برسا ابر تِری مہمانی کا
پیاس کا جھولا جھول رہا تھا ایک کٹورا پانی کا
آنکھ میں نیند کا کاجل بھر کے، کھینچ کے خوابوں کے ڈورے
تھپک تھپک کے بھوک سُلا دی، جوڑ کے تار کہانی کا
کتنے سیہ فاقوں کے جلو میں کتنی صدیاں بِیت گئیں
لیکن پرجا بُھول نہ پائی قصہ راجا رانی کا
پتھر چُن چُن ڈھیر بنایا، چھت کے لیے کڑیاں نہ جُڑیں
غُربت سب سے بڑا سچ نکلی، جُھوٹا مان جوانی کا
کتنی باتیں دل میں رکھ کر، کتنی باتیں کہہ جانا
میری رگ رگ میں، نس نس میں، زہر تھا گُل افشانی کا
تُو بھی پڑھ لکھ، اب تو ہوا بھی پڑھنا لکھنا سیکھ گئی
دیکھ گھروندے اُلٹ رہا ہے شوق ورق گردانی کا
نام پیمبر بیچ میں رکھا، شہرت کی انٹی کے لیے
اہلِ ہوس کی نیت میں تھا بھاؤ بس اک کنعانی کا
کھٹ کھٹ لاٹھی ٹیکتی بڑھیا اور ہواؤں سی کُٹیا
خُشک گھڑونجی پر اوندھا تھا ذوق فرات فشانی کا
چاند کے گھر میں سُورج اب کے کتنی راتیں ٹھہرے گا
تیرے لبوں تک کب آئے گا نام تِرے زندانی کا
کس دن تک دن پھر جائیں گے، کون سے گھاٹ لگائیں گے
مجھ سے تو کُھل کر کہہ خالدؔ جُھوٹ ستارہ دانی کا

خالد احمد

No comments:

Post a Comment