Saturday 29 March 2014

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب، یہ مروّت کیسی
دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رندِ آزاد ہیں، ہم کو شبِ فُرقت کیسی
جس حسِیں سے ہوئی اُلفت، وہی معشوق اپنا
عشق کِس چیز کو کہتے ہیں، طبیعت کیسی
جس طرح ہو سکے دن زیست کے پورے کر لو
چار دن کے لئے اِنسان کو حسرت کیسی
ہے جو قسمت میں وہی ہو گا، نہ کچھ کم نہ سوا
آرزو کہتے ہیں کِس چیز کو، حسرت کیسی
کوچۂ یار میں جاتا تو نظارہ کرتا
قیس آوارہ ہے جنگل میں، یہ وحشت کیسی
حُسنِ اِخلاق پہ جی لوٹ گیا ہے میرا
میں تو کُشتہ تِری باتوں کا ہُوں، صُورت کیسی
آپ بوسہ جو نہیں دیتے تو میں دِل کیوں دوں
ایسی باتوں میں مِری جان مروّت کیسی
ہم نہ کہتے تھے کہ زینت بھی ہے معشوق کو شرط
کیوں  نظر آتی ہے آئینے میں صورت کیسی

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment