Monday 17 March 2014

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں
ہائے وہ راتیں کہ جو خوابِ پریشاں ہو گئیں
میں فدا اس چاند سے چہرے پہ، جس کے نور سے
میرے خوابوں کی فضائیں یوسفؑ ستاں ہو گئیں
عمر بھر کم بخت کو پھر نیند آ سکتی نہیں
جس کی آنکھوں پر تِری زلفیں پریشاں ہو گئیں
دل کے پردوں میں تھیں جو جو حسرتیں پردہ نشیں
آج وہ آنکھوں میں آنسو بن کے عریاں ہو گئیں
کچھ تجھے بھی ہے خبر، او سونے والے ناز سے
میری راتیں لٹ گئیں، نیندیں پریشاں ہو گئیں
آہ وہ دن، جو نہ آئے پھر گزر جانے کے بعد
ہائے وہ راتیں کہ جو خوابِ پریشاں ہو گئیں

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment