نالہ، حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب دردِ دل، علاج و دوا سے گزر گیا
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقام صورت و صدا سے گزر گیا
اعجازِ بے خودی ہے کہ یہ حُسن بندگی
انصاف سیم و زر کی تجلی نے ڈس لیا
ہر جرم، احتیاجِ سزا سے گزر گیا
الجھی تھی عقل و ہوش میں ساغرؔ رہِ حیات
میں لے کے تیرا نام فنا سے گزر گیا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment