Tuesday 18 March 2014

سرِ راہ عدم گور غربياں طرفہ بستی ہے

سرِ راہِ عدم گورِ غربياں طُرفہ بستی ہے
کہيں غُربت برستی ہے کہيں حسرت برستی ہے
تِری مسجد ميں واعظ، خاص ہيں اوقات رحمت کے
ہمارے مے کدے ميں رات دن رحمت برستی ہے
خمارِ نشہ سے نگاہيں ان کی کہتی ہيں
يہاں کيا کام تيرا، يہ تو متوالوں کی بستی ہے
جوانی لے گئی ساتھ اپنے سارا عيش مستوں کا
صراحی ہے نہ شيشہ ہے نہ ساغر ہے نہ مستی ہے
ہمارے گھر ميں جس دن ہوتی ہے اس حُور کی آمد
چھپر کھٹ کو پری آ کر پری خانے سے کستی ہے
چلے نالے ہمارے يہ زبان حال سے کہہ کر
ٹھہر جانا پہنچ کر عرش پر، ہمت کی پستی ہے
اميرؔ اس راستے سے جو گزرتے ہيں وہ لُٹتے ہيں
محلہ ہے حسينوں کا، کہ قزاقوں کی بستی ہے

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment