شام آئی ہے شرابِ تیز پِینا چاہیے
ہو چکی ہے دیر اب زخموں کو سِینا چاہیے
مر گئے تو پھر کہاں ہے حسنِ زارِ زندگی
زخمِ دل گہرا بہت ہے پھر بھی جِینا چاہیے
آج وہ کس دھج سے سیرِ گلستاں میں محو ہے
اَبر ہو چھایا ہوا اور باغ ہو مہکا ہوا
گود میں گلفام ہو اور پاس مِینا چاہیے
جا بجا میلے لگے ہیں لال ہونٹوں کے منیر
تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بِینا چاہیے
منیر نیازی
مر گےء توپھرکہاں یہ حسن زارِزندگی
ReplyDeleteزخمِ دل گہرا بہت ہے پھربھی جیناچاہیے
[منیر نیازی]
آپ سے "حسن رازِ زندگی" ٹائپ ہو گیا ہے۔
تصحیح کے لیے شکرگزار ہوں
ReplyDeleteکبھی کبھی ٹائپو ہو جاتا ہے
آپ کا بے حد شکریہ