Monday 23 July 2018

ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ

ہر اک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ بیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے، خرچہ نکالنا ہے

Monday 16 July 2018

نیا حکم نامہ

نیا حکم نامہ

کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا

پرستار

پرستار

وہ جو کہلاتا تھا دیوانہ ترا 
وہ جسے حفظ تھا افسانہ ترا 
جس کی دیواروں پہ آویزاں تھیں 
تصویریں تری 
وہ جو دہراتا تھا 
تقریریں تری 

اعتراف

اعتراف 

سچ تو یہ ہے کہ قصور ہمارا ہے
چاند کو چھونے کی تمنا کی
آسمان کو زمین پر مانگا
پھول چاہا کہ پتھروں پہ کھلے
کانٹوں میں کی تلاش خوشبو کی
آگ سے مانگتے رہے ٹھنڈک

تاریخ کے چند دور

تاریخ کے چند دور 

راہوں میں پتھر
جلسوں میں پتھر
سینوں میں پتھر
عقلوں پہ پتھر
آستانوں پہ پتھر

پچھلے پہر کے سناٹے میں

پچھلے پہر کے سناٹے میں 

پچھلے پہر کے سناٹے میں 
کس کی سِسکی کس کا نالہ 
کمرے کی خاموش فضا میں در آیا ہے 
زور ہوا کا ٹوٹ چکا ہے 
کھلے دریچے کی جالی سے 

Saturday 14 July 2018

گزر گئی حد سے پائمالی عتاب ترک کلام کب تک​

گزر گئی حد سے پائمالی، عتابِ ترکِ کلام کب تک​
رہے گی مسدود اے سِتمگر! رہِ پیام و سلام کب تک​
بہت ستاتی ہے اس کی دوری، تلافئ غم بھی ہے ضروری​
ہو جلد صبحِ وصال یا رب، رہے گی فُرقت کی شام کب تک​
قفس میں صیاد بند کر دے، نہیں تو بے رحم چھوڑ ہی دے​
میانِ امید و بیم آخر، رہیں گے ہم زیرِ دام کب تک​

Tuesday 10 July 2018

تیز قدموں کی آہٹوں سے بھری

بھکارن

تیز قدموں کی آہٹوں سے بھری
رہگزر کے دو رویہ سبزہ و کشت
چار سُو ہنستی رنگتوں کے بہشت

صد خیابانِ گُل، کہ جن کی طرف
دیکھتا ہی نہیں کوئی راہی
سرخ پھولوں سے اک لدی ٹہنی

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار

توسیعِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چِیر گئے ان ساونتوں کے جسم

زندگی اے زندگی

زندگی، اے زندگی

خرقہ پوش و پا بہ گل
میں کھڑا ہوں، تیرے در پر، زندگی
ملتجی و مضمحل
خرقہ پوش و پا بہ گل
اے جہانِ خار و خس کی روشنی
زندگی، اے زندگی

سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر

درسِ ایام 

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدہا تبسموں سے لدے طاقچے گئے
آنکھوں کو چھیدتے ہوۓ نیزوں کے سامنے
محراب زر سے اٹھتے ہوۓ قہقہے گئے

Tuesday 3 July 2018

خاکم بدہن میں عازم میخانہ تھی کل رات کو دیکھا

خاکم بدہن

میں عازمِ مے خانہ تھی کل رات کو دیکھا
اک کوچۂ پر شور میں اصحابِ طریقت
تھے دست و گریباں
خاکم بدہن پیچ عماموں کے کھلے تھے
فتووں کی وہ بوچھاڑ کہ طبقات تھے لرزاں
دستانِ مبارک میں تھیں ریشانِ مبارک

جن پر میرا دل دھڑکا تھا

جن پر میرا دل دھڑکا تھا
وہ سب باتیں دہراتے ہو
وہ جانے کیسی لڑکی ہے 
تم اب جس کے گھر جاتے ہو
مجھ سے کہتے تھے
بن کاجل اچھی لگتی ہیں میری آنکھیں 

یہ زرد موسم کے خشک پتے

زرد موسم

یہ زرد موسم کے خشک پتے
ہوا جنہیں لے گئی اڑا کر
اگر کبھی تم یہ دیکھ پاؤ
تو سوچ لینا
کہ ان میں ہر برگ کی نمو میں
زیاں گیا عرق شاخِ گل کا

ایوان عدالت میں

ایوان عدالت میں

نذیر عباسی کی شہادت پر کہی گئی ایک نظم

پتھرائی ہوئی آنکھیں
پتھراۓ ہوۓ چہرے
پتھرائی ہوئی سانسیس
چمڑے کی زبانوں پر 
پتھرائی ہوئی باتیں