Monday, 16 July 2018

تاریخ کے چند دور

تاریخ کے چند دور 

راہوں میں پتھر
جلسوں میں پتھر
سینوں میں پتھر
عقلوں پہ پتھر
آستانوں پہ پتھر
دیوانوں پہ پتھر
پتھر ہی پتھر 
یہ زمانہ پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے 

دیگیں ہی دیگیں 
چمچے ہی چمچے
سِکّے ہی سِکّے
پیسے ہی پیسے
سونا ہی سونا 
چاندی ہی چاندی 
یہ زمانہ دھات کا زمانہ کہلاتا ہے 

لوگ سونے چاندی کی زنجیریں بناتے ہیں 
ہمیں اور آپ کو پہناتے ہیں
ہم اور آپ پہن کر خوش رہتے ہیں
بلکہ تھینک یو بھی کہتے ہیں 
ایک اور زمانہ ہے آئرن ایج
یعنی لوہے کا زمانہ 
لوہا وہ دھات ہے 
جس کا سب لوہا مانتے ہیں
ہل کا پھل بھی لوہا
کارخانے کی کل بھی لوہا 
لوہا مقناطیس بن جاتا ہے 
تو چاندی تک کو کھینچ لاتا ہے 
سو سنار کی ایک لوہار کی
سونے والے لوہے والوں سے ڈرتے ہیں 
لیکن کوئی کہاں تک رکواۓ گا 
ہمارے ہاں بھی لوہے کا زمانہ آۓ گا
کچا لوہا اور کسی کام کا نہیں 
بس اس سے آدمی بناتے ہیں
جو مرد آہن کہلاتے ہیں
ان کو زنگ لگ جاتا ہے
بلکہ کھا جاتا ہے
پھر بھی لوگ گھورے پر سے اٹھا لاتے ہیں 
زندہ باد کے نعروں سے جلاتے ہیں 

یہ اور دور ہے
لوگ ننگے گھومتے ہیں 
ننگے ناچتے ہیں
ننگے کلبوں میں جاتے ہیں
ایک دوسرے کو جلسوں میں ننگا کرتے ہیں
عوام تک کے کپڑے اتار لیتے ہیں
بلکہ کھال کھینچ لیتے ہیں 
کھالوں سے زر مبادلہ کماتے ہیں 
گوشت کچا کھا جاتے ہیں 
نہ چولہا ہے نہ سیخ ہے 
یہ زمانہ قبل از تاریخ ہے

ملاوٹ کی صنعت
رشوت کی صنعت
کوٹھی کی صنعت
پگڑی کی صنعت
حلوے کی صنعت
مانڈے کی صنعت
بیانوں اور نعروں کی صنعت
تعویزوں اور گنڈوں کی صنعت
یہ ہمارے ہاں کا صنعتی دور ہے

کاغذ کے کپڑے
کاغذ کے مکان
کاغذ کے آدمی
کاغذ کے جنگل
کاغذ کے شیر
ذرا نم ہو تو سب کے سب ڈھیر
کاغذ کے نوٹ 
کاغذ کے ووٹ 
کاغذ کا ایمان
کاغذ کے مسلمان
کاغذ کے اخبار
اور کاغذ کے ہی کالم نگار
یہ سارا کاغذ کا دور ہے

اب اس آخری دور کو دیکھیے 
پیٹ روٹی سے خالی
جیب پیسے سے خالی
باتیں بصیرت سے خالی
وعدے حقیقت سے خالی
دل درد سے خالی
دماغ عقل سے خالی 
شہر فرزانوں سے خالی
جنگل دیوانوں سے خالی
یہ خلائی دور ہے

لوگ توہّم کے غبارے پھلاتے ہیں
معجون فلک سیر کھاتے ہیں
رویت ہلال کمیٹیاں بناتے ہیں
آسمان کے تارے توڑ لاتے ہیں
ڈٹ کے دُمبے نوش فرماتے ہیں
بیت الخلا میں مدار پر پہنچ جاتے ہیں
ہمارے ہاں کا خلائی دور یہ ہی ہے 

ابن انشا

No comments:

Post a Comment